ڈھونڈتی چہرہ کسی دن کھڑکیاں رہ جائیں گی
اور پسِ پردہ تمہاری ہچکیاں رہ جائیں گی
موت اپنے ساتھ لے جائے گی انگلی تھام کر
چاہنے والوں کی پیچھے سسکیاں رہ جائیں گی
اِس بہانے ہی سہی میں یاد آؤں گا تمہیں
فیس بک کی وال پر جو سلفیاں رہ جائیں گی
پھول سارے چن کے لے جائے گا گلچیں باغ سے
دربدر یونہی بھٹکتی تتلیاں رہ جائیں گی
جب خزائیں نوچ لیں گی سبز شاخوں کا لباس
ہجر اوڑھے زرد رنگی ٹہنیاں رہ جائیں گی
جس گھڑی چاہے گا ڈوری کھینچ لے گا بازی گر
انگلیوں پہ ناچتی کٹھ پتلیاں رہ جائیں گی
یہ کہاں سوچا تھا ارشد ہم ملیں گے اس طرح
روبرو ہوتے ہوئے بھی دوریاں رہ جائیں گی
ارشد محمود
No comments:
Post a Comment