کب تک باتیں کرتے جائیں در اور میں
ہر آہٹ پر چونک اٹھتے ہیں گھر اور میں
دن بھر اک دُوجے سے لڑتے رہتے ہیں
رات کو تھک کر سو جاتے ہیں ڈر اور میں
گھر سے باہر بھی میری اک دنیا ہے
اور اس دنیا سے باہر ہیں گھر اور میں
چلتے چلتے دن کو شام آ لیتی ہے
تھک جاتے ہیں آخر ایک ڈگر اور میں
رات اور دن کا جادو جب ٹُوٹے گا تو
آمنے سامنے ہوں گے شعبدہ گر اور میں
ہجر کے شعلوں میں اک ساتھ ہی پگھلیں گے
میری راہ میں حائل یہ پتھر اور میں
عنبرین صلاح الدین
No comments:
Post a Comment