اب وہ اثر نہیں ہے کِسی کی پُکار میں
اِیماں کا آفتاب ہے گویا اُتار میں
شِدّت پسند ہو گئے بے زار آدمی
ہیں مُبتلا ہزاروں ہوس کے بُخار میں
رفتارِ اسپِ عُمر رواں سست پڑ گئی
گرمی کہاں سے لاؤ گے اُترے خُمار میں
یہ انقلابِ دورِ مُہذب تو دیکھیے
نوکر بتائے باپ کو بیٹا ہزار میں
محفوظ رہ نہ پائے گا شہر اماں بھی اب
بھونچال گھر بنا چُکا دل کے دیار میں
دُنیا کی ہر بُرائی چلی آئی اپنے گھر
کس پر اُٹھائیں اُنگلی، کہاں بیٹھیں چار میں
اسرارالحق فیاضی
No comments:
Post a Comment