Wednesday, 23 November 2022

تصور منکشف از بام ہو جانے سے ڈرتا ہوں

تصور منکشف از بام ہو جانے سے ڈرتا ہوں 

عطائے کشف کے اتمام ہو جانے سے ڈرتا ہوں 

زمین و عرش کے باہم تعلق کے تناظر میں 

زمین و عرش کا ادغام ہو جانے سے ڈرتا ہوں 

کبھی سب کر گزرنے کا جنوں بے چین رکھتا ہے 

کبھی یوں بھی ہوا سب کام ہو جانے سے ڈرتا ہوں 

محبت ارتباط قلب سے مشروط ہوتی ہے 

یقین و ربط کے ابہام ہو جانے سے ڈرتا ہوں 

کہاں مجھ کو میسر مصر کا بازار آئے گا 

خود اپنی ذات میں نیلام ہو جانے سے ڈرتا ہوں 

علی! بحر محبت کا شناور ہوں خدا شاہد 

وفا کے نام پہ الزام ہو جانے سے ڈرتا ہوں 


علی مزمل

No comments:

Post a Comment