تصور منکشف از بام ہو جانے سے ڈرتا ہوں
عطائے کشف کے اتمام ہو جانے سے ڈرتا ہوں
زمین و عرش کے باہم تعلق کے تناظر میں
زمین و عرش کا ادغام ہو جانے سے ڈرتا ہوں
کبھی سب کر گزرنے کا جنوں بے چین رکھتا ہے
کبھی یوں بھی ہوا سب کام ہو جانے سے ڈرتا ہوں
محبت ارتباط قلب سے مشروط ہوتی ہے
یقین و ربط کے ابہام ہو جانے سے ڈرتا ہوں
کہاں مجھ کو میسر مصر کا بازار آئے گا
خود اپنی ذات میں نیلام ہو جانے سے ڈرتا ہوں
علی! بحر محبت کا شناور ہوں خدا شاہد
وفا کے نام پہ الزام ہو جانے سے ڈرتا ہوں
علی مزمل
No comments:
Post a Comment