دستِ شبِ دل تک آ گیا اب کے
لو گیا، آخری دِیا، اب کے
طاق در طاق رقص کرتی ہے
بھیس بدلے ہوئے ہوا، اب کے
منہمک گُل نے جی ملُول کیۓ
مضمحل ہو گئی فضا، اب کے
پا بُریدہ ہیں لوگ منزل کے
سر بُریدہ ہے حوصلہ، اب کے
ہر نظر میں ہیں وحشتیں رقصاں
ہر قدم پر ہے کربلا، اب کے
اب تو دھڑکن بھی اختتام پہ ہے
کیا کرے گی تیری فضا، اب کے
صفِ ماتم پہ کیا سخن دانی؟
جی جلاتی ہے واہ وا، اب کے
صدف غوری
No comments:
Post a Comment