محبت اک مسلسل تجربہ ہے
راستہ ہے
اسے منزل نہیں سمجھو
اسے کھوجو
اسے سمجھو
اسے اندر اتارو
اسے سانسوں میں بھر لو
زندگی کر لو
اسے چمکاؤ، پھیلاؤ
اسے سب کو دکھاؤ
مت چھپاؤ
سبھی کی یہ ضرورت ہے
کہ اس کے دم سے ہی
یہ زندگی خود زندگی سے آشنا ہو گی
جو مرگِ ناگہاں ہے
وہ فقط اس سے فنا ہو گی
سعید ابراہیم
No comments:
Post a Comment