وہ حوروں کی دنیا کی اک شاہزادی، وہ پھولوں کی ملکہ، ستاروں کی رانی
وہ اک حُسنِ سادہ، وہ اک کیفِ رنگیں، وہ جاتا لڑکپن، وہ آتی جوانی
نہ آنکھوں میں کاجل، نہ بالوں میں افشاں، نہ ہونٹوں پہ سرخی، نہ گالوں پہ لالی
ابھی اُس نے سیکھا نہ تھا دل لگانا، ابھی اُس کو آتی نہ تھی دل ستانی
وہ مخمور نظریں ہراساں ہراساں، وہ معصوم چہرہ چراغاں چراغاں
لبوں کا تبسم گُلستاں گُلستاں، وہ رنگین آنچل کہ ہے دھانی دھانی
وہ اک ذہنِ شاعر کی تخیلِ دلکش، وہ اک حُسنِ فطرت کا شہکار رنگیں
فضاؤں کی شوخی، سمندر کی مستی، گُلوں کی نزاکت، ہوا کی روانی
وہ گُفتارِ شیریں، وہ رفتارِ رنگیں، وہ گیسُوئے مُشکیں، وہ اندازِ تمکیں
بہک جائے ساقی، چھلک جائے ساغر، مہک جائے گلشن، ٹھہر جائے پانی
جوانوں میں بیٹھے، حسینوں کو دیکھا، اداؤں کو پرکھا، نگاہوں کو جانا
مگر کوئی اُس سا نہ جگ بھر میں پایا، بہت مُلک گُھومے، بہت خاک چھانی
سہے چشمِ مائل کے الزام ہم نے، ہُوئے بزمِ خُوباں میں بدنام بھی ہم
مگر پہلے اپنی یہ حالت نہ دیکھی، کبھی دل نے ایسی محبت نہ جانی
سُنایا اُسے حالِ دل اپنا ہم نے، بہت ڈرتے ڈرتے، بہت سہمے سہمے
اُدھر وہ حیا سے پسینہ پسینہ،۔ اِدھر شرم سے ہم ہوئے پانی پانی
اُٹھیں اور ٹکرا گئیں اُٹھ کے نظریں، نہ کچھ کہہ سکے وہ، نہ کچھ کہہ سکے ہم
ہُوا اِس طرح عشق کا عہدِ مُحکم، نہ بدلی انگُوٹھی نہ مانگی نشانی
ہنسایا اُسے، گاہ اُس کو رُلایا، غرض ہر طرح اُس کو اپنا بنایا
غزل کوئی لکھی کبھی اُس کی خاطر، سُنائی کبھی کوئی غم کی کہانی
بہت ہلکے ہلکے، بہت دھیرے دھیرے، اُٹھے غیریت کے حجاب اُٹھتے اُٹھتے
جھجکتے جھجکتے، لرزتے لرزتے، غرض مانتے مانتے بات مانی
مِرے پاس آ کر ، حیا سے لجا کر، ذرا مسکرا کر نگاہیں جھکا دیں
وہ اُس کی ادائے خموشی کا عالم، کہ منہ چوم لے بڑھ کے جادو بیانی
نگاہوں سے پھینکے اگر تیر اُس نے، تو پھر اُن کو ہاتھوں سے چُن چُن نکالا
غرض اِس طرح اُس نے کی چارہ سازی، ہمیں آ گئی چوٹ پر چوٹ کھانی
چُھٹی مے پرستی، گئی کُوچہ گردی، رہی بات اُس کی، بنے پارسا ہم
ہُوئے جب اُس کے، کسی کو نہ تاکا، کسی کو نہ جھانکا، کسی کی نہ مانی
ذرا دیکھیے تو مقاماتِ عابد، مجاز آ گیا پھر حقیقت سے چل کر
جو دیکھا ہے اُس کو، ہُوا ہے یہ عالم کہ مُشکل ہے اب لو خدا سے لگانی
عابد اللہ غازی
No comments:
Post a Comment