دل منتشر ہیں یوں تیری محفل کے آس پاس
تارے ہوں جس طرح مہ کامل کے آس پاس
اللہ! کیا ہوا مِری کشتی کدھر گئی
دیکھا تو تھا ابھی اسے ساحل کے آس پاس
آلودۂ غبار ہے شاید کہ روحِ قیس
پھرتا ہے اک بگولا سا محمل کے آس پاس
اکسا رہے ہیں دشت نوردی پہ عشق کو
نالے ہیں جمع شعرِ سلاسل کے آس پاس
اے نا مراد عشق یہ کس کی نگاہ ہے
کانٹا سا چبھ رہا ہے میرے دل کے آس پاس
کشفی ملتانی
No comments:
Post a Comment