Wednesday 30 November 2022

دل منتشر ہیں یوں تیری محفل کے آس پاس

 دل منتشر ہیں یوں تیری محفل کے آس پاس

تارے ہوں جس طرح مہ کامل کے آس پاس

اللہ! کیا ہوا مِری کشتی کدھر گئی

دیکھا تو تھا ابھی اسے ساحل کے آس پاس

آلودۂ غبار ہے شاید کہ روحِ قیس

پھرتا ہے اک بگولا سا محمل کے آس پاس

اکسا رہے ہیں دشت نوردی پہ عشق کو

نالے ہیں جمع شعرِ سلاسل کے آس پاس

اے نا مراد عشق یہ کس کی نگاہ ہے

کانٹا سا چبھ رہا ہے میرے دل کے آس پاس


کشفی ملتانی

No comments:

Post a Comment