ملے گا اس کا مجھے کیا، اٹھا کے لایا ہوں
پرانے وقت کا سِکہ اٹھا کے لایا ہوں
زمیں کی تشنگی دیکھی نہیں گئی مجھ سے
میں اپنی اوک میں دریا اٹھا کے لایا ہوں
شبِ سیاہ میں کچھ تو مجھے سہولت ہو
کسی کی یاد کا تارا اٹھا کے لایا ہوں
کروں میں کیا کہ مجھے کوہکنی نہیں آتی
بس ایک آس پہ تیشہ اٹھا کے لایا ہوں
یہ پیاس علم کی کچھ تو بجھائیے صاحب
بڑے جتن سے میں بستہ اٹھا کے لایا ہوں
حوالے دھوپ کے جس نے مجھے کیا اک دن
اسی کے واسطے سایا اٹھا کے لایا ہوں
تمام اشک سرابوں میں ڈھل گئے ارشد
شکستہ آنکھ میں صحرا اٹھا کے لایا ہوں
ارشد محمود
No comments:
Post a Comment