اک آب سرخ ہے اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں
لہو کہ بہتا ہے، کرتا کراتا کچھ بھی نہیں
بس اس قدر ہے کہ شاید خلاصہ کچھ بھی نہیں
ہمارا اپنا تعارف لہٰذا کچھ بھی نہیں
یہ کارگاہِ ہوس ہے یہاں پہ ہجر و وصال
فریبِ عشق ہے اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں
قتال، ظلم، اندھیرا، قدم قدم کوئی خوف
یہ سب تو ہے مگر ایسا زیادہ کچھ بھی نہیں
خود اپنے واسطے اٹھتا ہے جب بھی اٹھتا ہے
ہمارے درد کو تم سے علاقہ کچھ بھی نہیں
ہم اوڑھ کر جو یہ بیٹھے ہیں تیرگی کا غلاف
وہ آنکھ دے کے بھی ہم کو دکھاتا کچھ بھی نہیں
یہ اعتماد محبت 💝 نے تیری بخشا ہے
یقین کر کہ ہمیں آتا جاتا کچھ بھی نہیں
یہ جسم و جان، یہ جوبن، سب ان کے نام کیا
مگر بتانِ خودی کو یہ دعویٰ کچھ بھی نہیں
مجھے تو یاد بھی رہتی نہیں ہے کل کی بات
مگر یہ دل، مجھے شک ہے، بھُلاتا کچھ بھی نہیں
بس اتنی دور رہو،. خوش نما نظر آؤ
قریب سے تو بہت ہم کو بھاتا کچھ بھی نہیں
اک اطمینان ہے سیما! کہ خود سلامت ہیں
کوئی جیے، مَرے اپنا تو جاتا کچھ بھی نہیں
سیما نقوی
No comments:
Post a Comment