قریب سے بھی جو پہچان میں نہیں آیا
وہ کون تھا جو مِرے دھیان میں نہیں آیا
یہ پھول دیکھ کے تم تو سمجھ گئے ہو گے
میں جنگ کے لیے میدان میں نہیں آیا
تھے جس کو یاد بہاروں کے لوک گیت سبھی
وہ پھول کانچ کے گلدان میں نہیں آیا
فقط خطائیں مِری تولتا رہا کوئی
بھلا عمل کوئی میزان میں نہیں آیا
ریاضتوں میں گزاری ہے زندگی میں نے
شعورِ فن مجھے اک آن میں نہیں آیا
وگرنہ ایک دِیا تو بچا کے لے آتا
ہوا کا شور مِرے کان میں نہیں آیا
عادل حسین
No comments:
Post a Comment