جو تنگ آ کے پرانی ڈگر کو چھوڑ گئے
نشاں کے طور پہ گرد سفر کو چھوڑ گئے
ذرا خبر نہ ہوئی قافلے کے لوگوں کو
وہ راستے میں کسی بے خبر کو چھوڑ گئے
تِرے فراق میں ویران ہو گئیں آنکھیں
جو چار اشک تھے وہ چشمِ تر کو چھوڑ گئے
ہوا میں اتنا اکیلا کہ یاس و حسرت بھی
مِرے مکان کے دیوار و در کو چھوڑ گئے
گھٹن کے خوف سے پہلے ہوا نے ہجرت کی
اور اس کے بعد پرندے شجر کو چھوڑ گئے
بڑا رواج چلا ہے گلی محلوں میں
کہیں مکان بنایا تو گھر کو چھوڑ گئے
حسن یہ شہرِ وفا اب بھی مجھ سے پوچھتا ہے
بتاو تم کیوں بہاول نگر کو چھوڑ گئے
احتشام حسن
No comments:
Post a Comment