ناقابلِ تلافی
گناہ کرنے کی حاجت ہی
کہاں تھی
کہ میرا جرم تو
دنیا میں اک عورت
کا پیکر لے کے آنا تھا
میری ہر سانس، میرے جسم
میری زندگی پر
میرے بابا کی مرضی تھی
میرا بابا یہ کہتا تھا
کہ تُو نے کر دیا ہے
اک ایسا جرم
جو سارے گناہوں سے
جرائم سے بڑا ہے
میرا بابا یہ کہتا تھا
تجھے مرنا پڑے گا
مجھے مرنا پڑا پھر
کہ میرا جرم
میرا یہ وجودِ ناتواں تھا
ثمن ابرار
No comments:
Post a Comment