اک طرح سے ہے یہ مٹی بھی یہ پتھر بھی غلاف
آنکھ بھر جائے تو لگتا ہے سمندر بھی غلاف
کیوں نہ تدبیر کروں اوڑھ کے سونے کی میں
تیرے نیچے بھی غلاف اور ہے اوپر بھی غلاف
💓خول کی سمت سفر اتنا کٹھن ہے پیارے
خول اگر کھولیں تو ہے خول کے اندر بھی غلاف
اک پرندہ ہے جو اب بیٹھ نہیں سکتا، مگر
لگ رہے ہیں اسے یہ سر و صنوبر بھی غلاف
ویسے تو اس نے قریب آنے نہیں دینا ہمیں
چوم لیں گے کبھی فارس کو سمجھ کر بھی غلاف
احسان فارس
No comments:
Post a Comment