Tuesday 31 July 2012

وہ لب کہ جیسے ساغر و صہبا دکھائی دے

وہ لب کہ جیسے ساغر و صہبا دِکھائی دے
جنبش جو ہو تو جام چھلکتا دِکھائی دے
دریا میں یوں تو ہوتے ہیں قطرے ہی قطرے سب
قطرہ وہی ہے جس میں کہ دریا دِکھائی دے
کیوں آئینہ کہیں اسے پتھر نہ کیوں کہیں
جس آئینے میں عکس نہ اس کا دِکھائی دے

نظر ملا نہ سکے اس سے اس نگاہ کے بعد

نظر ملا نہ سکے اس سے اس نگاہ کے بعد
وہی ہے حال ہمارا، جو ہو گناہ کے بعد
میں کیسے اور کسی سمت موڑتا خود کو
کسی کی چاہ نہ تھی دل میں تیری چاہ کے بعد
ضمیر کانپ تو جاتا ہے آپ کچھ بھی کہیں
وہ ہو گناہ سے پہلے، کہ ہو گناہ کے بعد

اِک غزل اس پہ لکھوں دل کا تقاضا ہے بہت

اِک غزل اس پہ لکھوں دل کا تقاضا ہے بہت
اِن دنوں خود سے بِچھڑ جانے کا دھڑکا ہے بہت
رات ہو، دن ہو، غفلت ہو، کہ بیداری ہو
اس کو دیکھا تو نہیں ہے اسے سوچا ہے بہت
تشنگی کے بھی مقامات ہیں کیا کیا، یعنی
کبھی دریا نہیں کافی، کبھی قطرہ ہے بہت

آگ ہے پانی ہے مٹی ہے ہوا ہے مجھ میں

آگ ہے، پانی ہے، مٹی ہے، ہوا ہے مجھ میں
اور پھر ماننا پڑتا ہے کہ خدا ہے مُجھ میں
اب تو لے دے کے وہی شخص بچا ہے مجھ میں
مجھ کو مجھ سے جو جدا کر کے چھپا ہے مجھ میں
جتنے موسم ہیں سب جیسے کہیں مل جائیں
ان دنوں کیسے بتاؤں جو فضا ہے مجھ میں

زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں

زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں
اور کیا جُرم ہے پتا ہی نہیں
سچ گھٹے یا بڑھے تو سچ نہ رہے
جھوٹ کی کوئی انتہا ہی نہیں
اتنے حصوں میں بٹ گیا ہوں میں
میرے حصے میں کچھ بچا ہی نہیں

Monday 30 July 2012

دکاندار؛ یہ تاجران دین ہیں

دُکاندار


یہ تاجرانِ دِین ہیں

خُدا کے گھر مکِین ہیں

ہر اِک خُدا کے گھر پہ ان کو اپنا نام چاہیے

خدا کے نام کے عِوض کُل انتظام چاہیے

ہر ایک چاہتا ہے یہ

یہ چمک دھول میں تحلیل بھی ہو سکتی ہے

یہ چمک دھول میں تحلیل بھی ہو سکتی ہے
کائنات اِک نئی تشکیل بھی ہو سکتی ہے
تم نہ سمجھو گے کوئی اور سمجھ لے گا اِسے
خامشی درد کی ترسِیل بھی ہو سکتی ہے
کچھ سنبھل کر رہو اِن سادہ ملاقاتوں میں
دوستی عشق میں تبدیل بھی ہو سکتی ہے

Sunday 29 July 2012

عشق کی مار بڑی دردیلی عشق میں جی نہ پھنسانا جی

عشق کی مار بڑی دردیلی عشق میں جی نہ پھنسانا جی
سب کچھ کرنا، عشق نہ کرنا، عشق سے جان بچانا جی
وقت نہ دیکھے، عمر نہ دیکھے، جب چاہے مجبور کرے
موت اور عشق کے آگے تو کوئی چلے نہ بہانہ جی
عشق کی ٹھوکر موت کی ہچکی دونوں کا ہے ایک اثر
ایک کرے گھر گھر رسوا، ایک کرے افسانہ جی

وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

 وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہی وعدہ، یعنی نباہ کا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ جو لُطف مجھ پہ تھے پیشتر، وہ کرم کہ تھا مرے حال پر

مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ نئے گِلے، وہ شکایتیں، وہ مزے مزے کی حکایتیں

وہ ہر ایک بات پہ رُوٹھنا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

مجھے دے کے مے میرے ساقیا میری تشنگی کو ہوا نہ دے

مجھے دے کے مے میرے ساقیا! میری تشنگی کو ہوا نہ دے
میری پیاس پر بھی تو کر نظر، مجھے میکشی کی سزا نہ دے
میرا ساتھ، اے میرے ہمسفر! نہیں چاہتا ہے، تو جام دے
مگر اس طرح سرِ راہگزر مجھے ہر قدم پہ صدا نہ دے
میرا غم نہ کر میرے چارہ گر، تیری چارہ جوئی بجا مگر
میرا درد ہے میری زندگی، مجھے دردِ دل کی دوا نہ دے

قلم جب درہم و دینار میں تولے گئے تھے

قلم جب دَرہم و دِینار میں تولے گئے تھے
کہاں تک دِل کی چِنگاری، ترے شعلے گئے تھے
فصیلِ شہرِ لب بستہ! گواہی دے کہ لوگ
دہانِ حلقۂ زنجیر سے بولے گئے تھے
تمام آزاد آوازوں کے چہرے گرد ہو جائیں
فِضاؤں میں کچھ ایسے زہر بھی گھولے گئے تھے

ہجر کی آنکھوں سے آنکھیں ملاتے جائیے

ہِجر کی آنکھوں سے آنکھیں مِلاتے جائیے
ہِجر میں کرنا ہے کیا، یہ تو بتاتے جائیے
بن کے خُوشبو کی اداسی رہیے دل کے باغ میں
دُور ہوتے جائیے، نزدیک آتے جائیے
جاتے جاتے آپ اتنا کام تو کیجیے مرا
یاد کا سر و ساماں جلاتے جائیے

بات یہ تیرے سوا اور بھلا کس سے کریں

بات یہ تیرے سوا اور بھلا کس سے کریں
تُو جفا کار ہوا ہے، تو وفا کس سے کریں
آئینہ سامنے رکھیں تو نظر تُو آئے
تجھ سے جو بات چھپانی ہو کہا کس سے کریں
زلف سے، چشم و لب و رخ سے کہ تیرے غم سے
بات یہ ہے کہ دِل و جاں کو رہا کس سے کریں

Saturday 28 July 2012

ہوا کے رخ پہ رہ اعتبار میں رکھا

ہَوا کے رخ پہ، رہِ اعتبار میں رکھا
بس اِک چراغ کُوئے انتظار میں رکھا
عجب طلسمِ تغافل تھا جس نے دیر تلک
مِری اَنا کو بھی کنج خمار میں رکھا
اڑا دیے خس و خاشاکِ آرزو سرِ راہ
بس ایک دِل کو تِرے اِختیار میں رکھا

مستئ حال کبھی تھی کہ نہ تھی بھول گئے

مستئ حال کبھی تھی کہ نہ تھی، بُھول گئے
یاد اپنی کوئی حالت نہ رہی، بھول گئے
یوں مجھے بھیج کے تنہا سرِ بازارِ فریب
کیا میرے دوست میری سادہ دلی بھول گئے
میں تو بے حِس ہوں، مُجھے درد کا احساس نہیں
چارہ گر کیوں روشِ چارہ گری بھول گئے؟

تمام عمر کے ساتھی سے دل بہلتا کیا

تمام عمر کے ساتھی سے دِل بہلتا کیا
وہ رات بھر کا مسافر تھا دِن ٹھہرتا کیا
اُسے تو اور نئے اِک سفر پہ چلنا تھا
وفا کے نام پہ اُس کا بدن پِگھلتا کیا
جو ہر قدم پہ نئی ٹھوکروں کا عادی ہو
جہاں شناس بھلا تیرے ساتھ چلتا کیا

جِنہیں صبح تک تھا جلنا سر شام بجھ گئے ہیں

جِنہیں صبح تک تھا جلنا، سرِ شام بجھ گئے ہیں
وہ چراغ کیا بجھے ہیں، در و بام بجھ گئے ہیں
ہوا ظلم جاتے جاتے، شبِ غم ٹھہر گئی ہے
جو سحر سے آ رہے تھے، وہ پیام بجھ گئے ہیں
نہ رہا کوئی شناسا کہ جو حال چال پوچھے
پسِ پردہ تھے جو روشن، وہ سلام بجھ گئے ہیں

شعلہ لب ہو کوئی یا غنچہ دہن تم سا ہو

شعلۂ لب ہو کوئی یا غنچہ دہن، تم سا ہو
کوئی بھی بات کرے ہم سے سخن تم سا ہو
اوڑھ کر جیسے فضا چادرِ ماہتاب چلی
کوئی ملبوس ہے ایسا، جو بدن تم سا ہو
کس کی قسمت ہے کہ تم سی کوئی آنکھیں پائے
کس میں وحشت ہے کہ آہوئے ختن تم سا ہو

تُم آؤ گے تو نئی محفلیں سجائیں گے

تم آؤ گے تو نئی محفلیں سجائیں گے
پھر ایک بار محبت کو آزمائیں گے
چراغ لائیں گے ہم پھر نئی دُکانوں سے
ہوائیں رُوٹھ گئی ہوں تو پھر منائیں گے
بنائیں گے کسی مہتاب کو جبِیں اپنی
اگر ملے کہیں سورج تو وہ بھی لائیں گے

ہمیں اس کو بھلانا تھا سو ہم یہ کام کر آئے

ہمیں اس کو بھلانا تھا، سو ہم یہ کام کر آئے
کہا، اب اس کی مرضی ہے اِدھر آئے، اُدھر آئے
کہا، اس سنگدل کے واسطے کیوں جان دیتے ہو
کہا، کچھ تو کروں ایسا کہ اس کی آنکھ بھر آئے
کہا، ہر راہ میں کیوں گھر بنانے کی تمنّا ہے
کہا، وہ جس طرف جائے، اُدھر میرا ہی گھر آئے

بتا نجومی میری ہتھیلی میں پیار کوئی

بتا نجومی! میری ہتھیلی میں پیار کوئی
کہا کہ تُجھ پر تو ہو چکا ہے نثار کوئی
بتا ستارہ شناس! کوئی سفر ہے لمبا
کہا بُلائے گا آسمانوں کے پار کوئی
بتا اٹھائے گا اس زمیں کی بھی کوئی ڈولی
کہا کہ لے جائے گا اِسے بھی کہار کوئی

بھلا کیوںکر نہ ہوں راتوں کو نیندیں بے قرار اس کی

بھلا کیونکر نہ ہوں راتوں کو نیندیں بے قرار اس کی
کبھی لہرا چکی ہو جس پہ، زُلفِ مُشکبار اس کی
امیدِ وصل پر، دل کو فریبِ صبر کیا دیجے؟
ادا وحشی صفت اُس کی، نظر بیگانہ وار اس کی
جفائے ناز کی میں نے شکایت ہائے کیوں کی تھی
مجھے جینے نہیں دیتی نگاہِ شرمسار اس کی

ہر ایک چہرے پہ دل کو گمان اس کا تھا

ہر ایک چہرے پہ دل کو گُمان اُس کا تھا
بسا نہ کوئی، یہ خالی مکان اُس کا تھا
میں بے جہت ہی رہا اور بے مقام سا وہ
ستارہ میرا، سمندر نشان اُس کا تھا
میں اُس طلسم سے باہر کہاں تلک جاتا
فضا کھلی تھی، مگر آسمان اُس کا تھا

يہ تو ميں کيونکر کہوں تيرے خريداروں ميں ہوں

يہ تو ميں کيونکر کہوں تيرے خريداروں ميں ہوں
تُو سراپا ناز ہے، ميں ناز برداروں ميں ہوں
وصل کيسا، تيرے ناديدہ خريداروں ميں ہوں
واہ رے قسمت کہ اس پر بھی گناہگاروں ميں ہوں
ناتوانی سے ہے طاقت ناز اٹھانے کی کہاں
کہہ سکوں گا کيونکر کہ تيرے نازبرداروں ميں ہوں

میری محدود بصارت کا نتیجہ نکلا

میری محدود بصارت کا نتیجہ نِکلا
آسماں میرے تصوّر سے بھی ہلکا نِکلا
روزِ اوّل سے ہے فطرت کا رقیب، آدم زاد
دُھوپ نِکلی تو میرے جسم سے سایا نِکلا
جب بھی اُٹھا کوئی فِتنہ، مُجھے محسوس ہوا
کہ جو ابلیس کا دعویٰ تھا، وہ سچّا نِکلا

Friday 27 July 2012

صورت خار دے چبھن، صورت گل

صورتِ خار دے چبھن، صورت گل کِھلا مُجھے
تجھ پہ ہے اَب یہ فیصلہ، چاہیے اِنتہا مجھے
بھید مری سرِشت کا اِس سے کُھلے گا اور بھی
میں کہ گلوں کی خاک ہوں لے تو اڑے ہوا مجھے
کھائے نہ تن پہ تِیر بھی، لائے نہ جُوئے شِیر بھی
کیسے فرازِ ناز سے شوخ وہ، مِل گیا مجھے

حکمراں انصاف سے خود ہی جہاں عاری ہوا

حکمراں انصاف سے خود ہی جہاں عاری ہوا 
سانس لینا خلق کا، اُس دیس میں بھاری ہوا 
مُقتدر بالحِرص ہیں جو جبر سے اُن کے، یہاں 
گردنوں کے گِرد طوقِ عجز ہے دھاری ہوا 
ختم کر دے دُوریاں بھی دو دھڑوں کے درمیاں 
اور فسادِ دیہہ کا باعث بھی پٹواری ہوا 

گلشن گلشن گرد برستی کرنی پڑی قبول میاں

گُلشن گُلشن گرد برستی، کرنی پڑی قبُول میاں 
اب کے پت جھڑ ایسی آئی ہم بھی ہوئے ملُول میاں 
کیوں اُس بات کے کھوجی ٹھہرے تم میری رسوائی کو 
میں جو بات چُھپانا چاہوں، بات کو دے کر طُول میاں 
کام کی بات تلاش کرو تو ریت میں سونے جیسی ہے 
کہنے کو لوگوں نے کہا ہے کیا کیا کچھ نہ فضُول میاں 

رات کٹتی ہے سلگتے مری جاں آنکھوں میں

رات کٹتی ہے سُلگتے مری جاں، آنکھوں میں 
دیکھ تسکین کی صُورت ہے کہاں آنکھوں میں
دلِ ناداں کی پیمبر ہیں، اِنہیں دیکھ ذرا 
ہے کوئی غم تری جانب نگراں آنکھوں میں 
پہلوئے دل میں مہکتا ہے وہی اِک گُل تر 
تیرتا ہے وہی اِک ماہِ رواں آنکھوں میں 

دھوپ میں جھلسا ہوں میں کچھ دیر سستانے تو دو

دُھوپ میں جُھلسا ہوں مَیں کچھ دیر سستانے تو دو 
پوچھنا حالِ سفر بھی، ہوش میں آنے تو دو
دیکھنا، اُبھروں گا پہلو میں یدِ بیضا لیے 
ظُلمتِ شب میں ذرا مُجھ کو اُتر جانے تو دو 
نُطق ہونٹوں سے مرے پُھوٹے گا بن کر چاندنی 
میری آنکھوں سے یہ چُپ کا زہر بہہ جانے تو دو 

Thursday 26 July 2012

پتا گرے شجر سے تو لرزہ ہمیں ہو کیوں

پتّا گرے شجر سے تو لرزہ ہمیں ہو کیوں
گرتوں کے ساتھ گرنے کا کھٹکا ہمیں ہو کیوں
قارون ہیں جو، زر کی توقّع ہو اُن سے کیا
ایسوں پہ اِس قبیل کا دھوکا ہمیں ہو کیوں
بے فیض رہبروں سے مرتّب جو ہو چلی
احوال کی وہ شکل، گوارا ہمیں ہو کیوں

تیری نظر کا معجزہ کرب کو یوں بدل گیا

تیری نظر کا معجزہ، کرب کو یوں بدل گیا
قطرۂ اشک آنکھ سے بن کے گُہر اُچھل گیا
میں تو خزاں کے بعد بھی برگ سمیٹتا رہا
وہ تو عجیب شخص تھا، رنگ کئی بدل گیا
دشمنِ جاں کے قتل میں میرا ہُنر تو کچھ نہ تھا
تیر ہی بس کمان سے، اُس کی طرف نِکل گیا

ہے جس کے ہات میں پتھر اسے گماں بھی نہیں

ہے جِس کے ہات میں پتھر اسے گماں بھی نہیں
کہ فکرِ آئینۂ جسم و جاں، یہاں بھی نہیں
جو بات تیری نظر میں ہے اور مِرے دل میں
اگر زباں پہ نہ آئے تو رائیگاں بھی نہیں
اب اُس نے وقت نکالا ہے حال سُننے کو
بیان کرنے کو جب کوئی داستاں بھی نہیں

جب تیر چل گیا تو کماں بھی نہیں رہی

جب تیر چل گیا، تو کماں بھی نہیں رہی
لگتا تھا جیسے جسم میں جاں بھی نہیں رہی
سارے حسِین بیچتے پِھرتے ہیں شہر میں
جنسِ وفا، اب ایسی گراں بھی نہیں رہی
وہ مسکرا کے پوچھتے تھے مدعائے دل
اور اپنے منہ میں جیسے زباں بھی نہیں رہی

Tuesday 24 July 2012

جب تیرا حکم ملا ترک محبت کر دی

جب تیرا حکم ملا ، ترک محبت کر دی
دل مگر اس پہ وہ دھڑکا کہ قیامت کر دی 
تجھ سے کس طرح میں اظہارِ تمنا کرتا 
لفظ سوجھا تو معنی نے بغاوت کر دی 
میں تو سمجھا تھا کہ لوٹ آتے ہیں جانے والے 
تُو نے تو جا کہ جدائی مِری قسمت کر دی 

کس کو دلدار کہیں کس کو دلآزار کہیں

جب ہر انسان کو ہم پیار کا شہکار کہیں
دَور یہ وہ ہے، کہ اربابِ شعور و دانش
حُسن کا نام نہ لیں، عِشق کو آزار کہیں
آج کے لوگ تو لفظوں کے بدل کر مفہوم
ہجر کو وصل کہیں، دشت کو گلزار کہیں
سخت دشوار ہے پتّھر کو گلِ تر کہنا

کوہ کاٹیں گے کبھی دشت کبھی چھانیں گے

کوہ کاٹیں گے کبھی، دشت کبھی چھانیں گے
ہم تو اے عِشق! سدا تیرا کہا مانیں گے
ہم تو خُوش ہیں تیرے اظہارِ محبت سے، مگر
آئینے اب تری صُورت نہیں پہچانیں گے
تُو بھلانا ہمیں چاہے تو بھلا دے، لیکن
تُو ہمیں یاد نہ آئے گا تو جب جانیں گے

میں وہ شاعر ہوں جو شاہوں کا ثنا خواں نہ ہوا

مَیں وہ شاعر ہوں، جو شاہوں کا ثنا خواں نہ ہوا
یہ ہے وہ جرم، جو مُجھ سے کِسی عنواں نہ ہوا
اس گُنہ پر، میری اِک عمر اندھیرے میں کٹی
مجھ سے، اس موت کے میلے میں چراغاں نہ ہوا
کل جہاں پھول کھِلے، جشن ہے زخموں کا وہاں
دل وہ گلشن ہے، اجڑ کر بھی جو ویراں نہ ہوا

بہت مشکل ہے ترک عاشقی کا درد سہنا بھی

بہت مُشکل ہے ترکِ عاشقی کا درد سہنا بھی
بہت دُشوار ہے لیکن محبت کرتے رہنا بھی
خدا کی طرح، میری چُپ کے بھی مفہوم لاکھوں ہیں
اِک اندازِ تکلّم ہے کِسی سے کچھ نہ کہنا بھی
اسے کھو کر مَیں جیسے زندگی کا حُسن کھو بیٹھا
محبت میں مگر اس داغ کو کہتے ہیں گہنا بھی

جانے کون رہزن ہیں جانے کون رہبر ہیں

جانے، کون رہزن ہیں، جانے کون رہبر ہیں
گرد گرد چہرے ہیں، آئینے مکدّر ہیں
مُجھ کو جبر لفظوں کا، بولنے نہیں دیتا
ورنہ جتنے صحرا ہیں، ریت کے سمندر ہیں
بیسویں صدی کیسا انقلاب لائی ہے
کوہ پر ببُولیں ہیں، دشت میں صنوبر ہیں

برف جیسے لمحوں کو دی ہے مات پھر میں نے

برف جیسے لمحوں کو دی ہے مات پِھر میں نے
دِل میں درد سُلگایا، آج رات پِھر میں نے
صُبح کے درِیچے میں جھانک اے شبِ ہِجراں
کر دِیا تجھے ثابت، بے ثبات پِھر میں نے
کیا کِسی نے دستک دی، پِھر کسی ستارے پر
رقص کرتے دیکھی ہے کائنات پِھر میں نے

Monday 23 July 2012

میں نعرۂ مستانہ میں شوخئ رِندانہ

 میں نعرۂ مستانہ، میں شوخئ رِندانہ

میں تشنہ کہاں جاؤں، پی کر بھی کہاں جانا

میں طائرِ لاہُوتی، میں جوہرِ ملکُوتی

ناسُوتی نے کب مُجھ کو، اس حال میں پہچانا

میں سوزِ محبت ہوں، میں ایک قیامت ہوں

میں اشکِ ندامت ہوں، میں گوہرِ یکدانہ

کس یاد کا صحرا ہوں، کس چشم کا دریا ہوں

خُود طُور کا جلوہ ہوں، ہے شکل کلیمانہ

میں شمعِ فروزاں ہوں، میں آتشِ لرزاں ہوں

میں سوزشِ ہجراں ہوں، میں منزلِ پروانہ

میں حُسنِ مجسّم ہوں، میں گیسوئے برہم ہوں

میں پُھول ہوں شبنم ہوں، میں جلوۂ جانانہ

میں واصفِ بسمل ہوں، میں رونقِ محفل ہوں

اِک ٹُوٹا ہوا دل ہوں، میں شہر میں ویرانہ


واصف علی واصف


Main nara-e-mastana, main shokhi-e-rindana
Main tashna kahan jaaon, pee kar bhi kahan jana

Slogan of Inebriation am I, drunkard mercurialness am I
Drink may I, may I not hardly does it make a difference

Main souz-e-mohabbat hoon, main aik qayamat hoon
Main ashk-e-nadaamat hoon, main gouhar-e-yakdana

A burning heat of love am I, the eventual
Tear of ignominy, a pearl unfound am I

Main tair-e-lahooti, main johar-e-malkooti
Nasoot ne kab mujh ko is haal mein pehchana

Pern of heaven, the gem of empires and I
Hath when humanity known me so?

Main sham-e-farozan hoon, main aatish-e-larza hoon
Main sozish-e-hijraan hoon, main manzil-e-parwana

Illuminating light of the dusk, a raging flame am I
Mordancy of parting, Destination of Pyralid am I

Kis yaad ka sehra hoon, kis chashm ka darya hoon
Khud toor ka jalwa hoon, hai shakl qalbhana

A desert of thoughts, a river of which fall?
the biggest reality of the universe yet unrevealed

Main husn-e-mujassim hoon, main gesu-e-barham hoon
Main phool hoon shabnam hoon, main jalwa-e-janana

A  frozen beauty am I, a ringlet in anger
A flower, the dew am I, beauty of the beloved

Main wasif-e-bismil hoon, main ronaq-e-mehfil hoon
Ik toota howa dil hoon, main shehar mein veerana

Wasif, slayed am I, heart of the crowd
A broken heart am I, a lonely in the city.


Poet: Wasif Ali Wasif

٭ English translation in black color

کھلا ہے جھوٹ کا بازار آؤ سچ بولیں

کُھلا ہے جُھوٹ کا بازار، آؤ سچ بولیں
نہ ہو بلا سے خریدار، آؤ سچ بولیں
سکُوت چھایا ہے انسانیت کی قدروں پر
یہی ہے موقعِ اِظہار، آؤ سچ بولیں
ہمیں گواہ بنایا ہے وقت نے
بنامِ عظمتِ کِردار، آؤ سچ بولیں

Sunday 22 July 2012

رہبر کارواں حسین رہرہ بے گماں حسین

عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ

رہبرِ کارواں حسین، رہرہِ بے گماں حسین
آج مگر کہاں حسین، مرکزِ ہر فغاں حسین
ہائے قتیلِ بے خطا، ہائے شہیدِ بارضا
دشتِ بلا میں بے نوا، راقمِ داستاں حسین
اصغر و اکبر و عباس، کوئی نہیں ہے آج پاس
گویا وفا ہے حرفِ یاس، پیکرِ بے زباں حسین

رخصتی ; ہم پردیسی اس آنگن میں

رخصتی
 
ہم پردیسی اس آنگن میں
دیس ہمارا دور، بابل یہ کیسا دستور
چھوڑ کے تیری نگری کو ہم
جانے پر مجبور، بابل یہ کیسا دستور
کوئی نہ جائے ساتھ ہمارے
ہم تنہا پنچھی بے چارے

تلاش؛ میں نوحہ گر ہوں

تلاش

میں نوحہ گر ہوں
ضمیرِ آدمؑ کا نوحہ گر ہوں
سزا ملی ہے ضمیرِ آدمؑ کو خودکشی کی
ضمیرِ آدمؑ
تجھے میں کیسے حیات بخشُوں
تِرا مسیحا ۔۔۔۔ کہاں سے لاؤں

چارسو نور کی برسات ہوئی آج کی رات

واقعۂ معراج

چار سُو نُور کی برسات ہوئی آج کی رات
احد اور احمدؐ کی ملاقات ہوئی آج کی رات
گفتگو ذات سے بالذّات ہوئی آج کی رات
مختصر یہ کہ بڑی بات ہوئی آج کی رات
راکبِ وقت نے کھینچی ہے زمامِ گردِش
حیرتِ ارض و سماوات ہوئی آج کی رات

مجھے تم سے محبت توبہ توبہ

مجھے تم سے محبت، توبہ توبہ
یہ گستاخی یہ جرأت، توبہ توبہ
اٹھا رکھا ہے سر پر آسماں کو
مگر بارِ امانت، توبہ توبہ
چلا ہے شیخ مے خانے کی جانب
مجھے کر کے نصیحت، توبہ توبہ

تیری نگاہ لطف اگر ہمسفر نہ ہو

تیری نگاہِ لطف اگر ہمسفر نہ ہو
دُشوارئ حیات کبھی مُختصر نہ ہو
اِتنا سِتم نہ کر کہ نہ ہو لذّتِ سِتم
اِتنا کرم نہ کر کہ مِری چشم تر نہ ہو
یہ بھی درست، میرے فسانے ہیں چارسُو
یہ بھی بجا کہ آپ کو میری خبر نہ ہو

کل تک جو کر رہے تھے بڑے حوصلے کی بات

کل تک جو کر رہے تھے بڑے حوصلے کی بات
ہے ان کے لب پہ آج، کٹھن مرحلے کی بات
جس کارواں کے سامنے تارے نِگوں رہے
صحرا میں اُڑ گئی ہے اسی قافلے کی بات
آخر، سرِ غرور نے سجدہ کیا اسے
یوں مختصر ہوئی ہے بڑے فاصلے کی بات

سنبھل جاؤ چمن والو خطر ہے ہم نہ کہتے تھے

سنبھل جاؤ چمن والو! خطر ہے، ہم نہ کہتے تھے
جمالِ گُل کے پردے میں شرر ہے، ہم نہ کہتے تھے
لبوں کی تشنگی کو ضبط کا اِک جام کافی ہے
چھلکتا جام زہرِ کارگر ہے، ہم نہ کہتے تھے
زمانہ ڈھونڈتا پِھرتا ہے جس کو اِک زمانے سے
محبت کی وہ اِک پہلی نظر ہے، ہم نہ کہتے تھے

روشنی کائنات کی خوشبو

روشنی، کائنات کی خُوشبو
چار سُو حُسنِ ذات کی خُوشبو
فاصلے وقت کے سمٹتے ہیں
جب مہکتی ہے رات کی خُوشبو
دل کی گہرائیوں سے جب نکلے
پھیلتی جائے بات کی خُوشبو

ہر ذرہ ہے اک وسعت صحرا میرے آگے

ہر ذرّہ ہے اک وسعت صحرا میرے آگے
ہر قطرہ ہے، اِک موجۂ دریا میرے آگے
اک نعرہ لگا دوں کبھی مستی میں سرِ دار
کعبہ نہ بنے کیسے کلیسا میرے آگے
وہ خاک نشِیں ہوں کہ میری زد میں جہاں ہے
بل کھاتی ہے کیا موجِ ثریا میرے آگے

رازِ دل آشکار آنکھوں میں

رازِ دل آشکار آنکھوں میں
حشر کا انتظار آنکھوں میں
وہ بھی ہو گا کسی کا نُورِ نظر
جو کھٹکتا ہے خار آنکھوں میں
لے کے اپنی نگاہ میں قُلزم
آ، مِری ریگزار آنکھوں میں

سر عرش نعرہ بپا ہوا کہ یہ کون ہے

سرِ عرش نعرہ بپا ہوا، کہ یہ کون ہے اِسے کیا ہوا
کوئی منچلا ہے کہ دل جلا، یا وجودِ ہست فنا ہوا
یہ مقامِ دل ہے کہ الاماں، یہ کہاں نصیبۂ قدسیاں
کہ فغاں گئی سوئے لامکاں، تو مکیں کا دل تھا ہِلا ہوا
یہ دعا تھی ایک غریب کی، کسی دل جلے کے نصیب کی
کہاں بات تھی یہ قریب کی، کہ فلک کا در تھا کھلا ہوا

Saturday 21 July 2012

ہر چہرے میں آتی ہے نظر یار کی صورت

ہر چہرے میں آتی ہے نظر یار کی صُورت
احباب کی صورت ہو کہ اغیار کی صورت
سینے میں اگر سوز سلامت ہو تو خود ہی
اشعار میں ڈھل جاتی ہے افکار کی صورت
جس آنکھ نے دیکھا تجھے اس آنکھ کو دیکھوں
ہے اس کے سوا کیا تیرے دیدار کی صورت

کیا ملے واصف کی مستی کا سراغ

کیا ملے واصف کی مستی کا سراغ
چشمِ ساقی نے کِیا روشن چراغ
ہر قدم پر اِک نئی منزل ملی
گل کِھلے ہیں یا ہمارے دل کے داغ
مستئ رِنداں سے جھوم اُٹھی زمیں
آسمان ہے سرنِگوں جیسے ایاغ

Friday 20 July 2012

اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے صابر دت

سالِ نَو

”اِک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے“
ظُلم کی رات بہت جلد ڈھلے گی اب تو
آگ چُولہوں میں شب و روز جلے گی اب تو
بُھوک کے مارے کوئی بچہ نہیں روئے گا
چین کی نیند ہر اِک شخص یہاں سوئے گا
آندھی نفرت کی چلے گی نہ کہیں اب کے برس
پیار کی فصل اُگائے گی زمیں اب کے برس

فبای الا ربکما تکذبان

فَبِأَیِّ آلَائِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰن

دلآزاری بھی اِک فن ہے
اور کچھ لوگ تو
ساری زندگی اسی کی روٹی کھاتے ہیں
چاہے ان کا بُرج کوئی ہو
تیسرے درجے کے پیلے اخباروں پر یہ
اپنی یرقانی سوچوں سے

فروغ فرح زاد کے لئے ایک نظم

فروغ فرح زاد کے لیے ایک نظم

مصاحبِ شاہ سے کہو کہ
فقیہِ اعظم بھی آج تصدیق کر گئے ہیں
کہ فصل پھر سے گناہگاروں کی پک گئی ہے
حضور کی جنبشِ نظر کے
تمام جلاد منتظر ہیں

ایک سوال دور جا بسنے والوں سے

ایک سوال، دور جا بسنے والوں سے

پھر وہی بسترِ سنجاف پہ کانٹوں کی بہار
پھر سے شب خوابی کے ملبوسِ حریری میں تنِ زار کی آگ
پھر تیری یاد میں جلتے دل کو
کسی پہلو نہیں آتا قرار
اے میرے خواب چراغ

کچھ فیصلہ تو ہو کہ کدھر جانا چاہئے

کچھ فیصلہ تو ہو کہ کِدھر جانا چاہیے
پانی کو اب تو سر سے گزر جانا چاہیے
نشتر بدست شہر سے چارہ گری کی لو
اے زخمِ بے کسی تجھے بھر جانا چاہیے
ہر بار ایڑیوں پہ گِرا ہے میرا لہو
مقتل میں اب بہ طرزِ دِگر جانا چاہیے

پاسبانی پہ اندھیرے کو تو گھر پر رکھا

پاسبانی پہ اندھیرے کو تو گھر پر رکھا
اور چراغوں کو تیری راہگزر پر رکھا
رہ گیا ہاتھ، سدا تیغ و سپر پر رکھا
ہم نے ہر رات کا انجام سحر پر رکھا
ہاتھ اٹھائے رہے ہر لمحہ دعا کی خاطر
اور الفاظ کو تنسیخِ اثر پر رکھا

Thursday 19 July 2012

میں ہجر کے عذاب سے انجان بھی نہ تھی

میں ہجر کے عذاب سے انجان بھی نہ تھی
پر کیا ہوا کہ صبح تلک جان بھی نہ تھی
آئے ہیں گھر میرے، تجھے جتنی جھجک رہی
اس درجہ تو میں بے سر و سامان بھی نہ تھی
اتنا سمجھ چکی تھی میں اس کے مزاج کو
وہ جا رہا تھا، اور میں حیران بھی نہ تھی

اب کون سے موسم سے کوئی آس لگائے

اب کون سے موسم سے کوئی آس لگائے
برسات میں بھی یاد نہ جب ان کو ہم آئے
مٹی کی مہک سانس کی خوشبو میں اتر کر
بھیگے ہوئے سبزے کی ترائی میں بلائے
دریا کی طرح موج میں آئی ہوئی برکھا
زردائی ہوئی رُت کو ہرا رنگ پِلائے

دشمن کو ہارنے سے بچانا عجیب تھا

دشمن کو ہارنے سے بچانا عجیب تھا
ترکِ مدافعت کا بہانہ عجیب تھا
اک دوسرے کو جان نہ پائے تمام عمر
ہم ہی عجیب تھے کہ زمانہ عجیب تھا
زندہ بچا نہ قتل ہُوا طائرِ امید
اس تیرِ نِیم کش کا نشانہ عجیب تھا

کیا کرے میری مسیحائی بھی کرنے والا

کیا کرے میری مسیحائی بھی کرنے والا
زخم ہی یہ مجھے لگتا نہیں بھرنے والا
زندگی سے کسی سمجھوتے کے باوصف اب تک
یاد آتا ہے کوئی مارنے، مرنے والا
اس کو بھی ہم تیرے کوچے میں گزار آئے ہیں
زندگی میں وہ جو لمحہ تھا سنورنے والا

کھلے گی اس نظر پہ چشم تر آہستہ آہستہ

کھلے گی اس نظر پہ چشمِ تر، آہستہ آہستہ
کیا جاتا ہے پانی میں سفر، آہستہ آہستہ
کوئی بھی زنجیر پھر واپس وہیں پر لے کے آتی ہے
کٹھن ہو راہ تو چھٹتا ہے گھر، آہستہ آہستہ
بدل دینا ہے رستہ یا کہیں پر بیٹھ جانا ہے
کہ تھکتا جا رہا ہے ہمسفر، آہستہ آہستہ

ہمسفر چھوٹ گئے راہگزر کے ہمراہ

ہمسفر چھوٹ گئے راہگزر کے ہمراہ
کوئی منظر نہ چلا دیدۂ تر کے ہمراہ
ایسا لگتا ہے کہ پیروں سے لِپٹ آئی ہے
ایک زنجیر بھی اسبابِ سفر کے ہمراہ
اتنا مشکل تو نہ تھا میرا پلٹنا، لیکن
یاد آ جاتے ہیں رستے بھی تو گھر کے ہمراہ

دشت و دریا سے گزرنا ہو کہ گھر میں رہنا

دشت و دریا سے گزرنا ہو کہ گھر میں رہنا
اب تو ہر حال میں ہے ہم کو سفر میں رہنا
دل کو ہر پل کِسی جادو کے اثر میں رہنا
خود سے نکلے تو کسی اور کے ڈر میں رہنا
شہرِ غم! دیکھ، تیری آب و ہوا خشک نہ ہو
راس آتا ہے اسے دیدۂ تر میں رہنا

وہ عکس موجہ گل تھا چمن چمن میں رہا

وہ عکسِ موجۂ گل تھا، چمن چمن میں رہا
وہ رنگ رنگ میں اترا، کرن کرن میں رہا
وہ نام حاصلِ فن ہو کے میرے فن میں رہا
کہ روح بن کے مری سوچ کے بدن میں رہا
سکونِ دل کے لیے میں کہاں کہاں نہ گئی
مگر یہ دل، کہ سدا اس کی انجمن میں رہا

وقت کے ساتھ عناصر بھی رہے سازش میں

وقت کے ساتھ عناصر بھی رہے سازش میں
جل گئے پیڑ کبھی دھوپ کبھی بارش میں
وہ تو اِک سادہ و کم شوق کا طالب نکلا
ہم نے ناحق ہی گنوایا اسے آرائش میں
زندگی کی کوئی محرومی نہیں یاد آئی
جب تلک ہم تھے تیرے قرب کی آسائش میں

بے فیض رفاقت میں ثمر کس کے لئے تھا

بے فیض رفاقت میں ثمر کِس کے لیے تھا
جب دھوپ تھی قسمت میں تو شجر کس کے لیے تھا
پردیس میں سونا تھا تو چھت کِس لیے ڈالی
باہر ہی نکلنا تھا تو گھر کس کے لیے تھا
جس خاک سے پھوٹا ہے اسی خاک کی خوشبو
پہچان نہ پایا تو ہنر کس کے لیے تھا

یا سمیع یا بصیر

یا سمیع، یا بصیر 

ہجومِ غم سے جس دم آدمی گھبرا سا جاتا ہے
تو ایسے میں
اُسے آواز پر قابو نہیں رہتا
وہ اِتنے زور سے فریاد کرتا، چیختا اور بلبلاتا ہے
کہ جیسے وہ زمیں پر اور خُدا ہو آسمانوں میں

تم سچے برحق سائیں

تم سچے برحق سائیں

تم سچے برحق سائیں
سر سے لے کر پیروں تک
دُنیا شک ہی شک سائیں
تم سچے برحق سائیں
اک بہتی ریت کی دہشت ہے
اور ریزہ ریزہ خواب مرے

دل بے خبر ذرا حوصلہ

دلِ بے خبر ذرا حوصلہ

کوئی ایسا گھر بھی ہے شہر میں جہاں ہر مکین ہو مطمئِن
کوئی ایسا دن بھی کہیں پہ ہے جسے خوفِ آمدِ شب نہیں
یہ جو گرد بادِ زمان ہے، یہ ازل سے ہے، کوئی اب نہیں
دلِ بے خبر ذرا حوصلہ
یہ جو خار ہیں تیرے پاؤں میں، یہ جو زخم ہیں تیرے ہاتھ میں
یہ جو خواب پھرتے ہیں دربدر، یہ جو بات اُلجھی ہے بات میں

ارض وطن کے لئے ایک نظم

ارضِ وطن کے لئے ایک نظم

اِک نظم لکھیں
اے ارضِ وطن، ہم تیرے لیے اک نظم لکھیں
تِتلی کے پروں سے رنگ چُنیں
ان سازوں سے آہنگ چُنیں
جو رُوح میں بجتے رہتے ہیں 

وقت سے کون کہے

وقت سے کون کہے

وقت سے کون کہے یار
ذرا آہستہ چل
گر نہیں وصل تو یہ خوابِ رفاقت ہی ذرا دیر رہے
وقفۂ خواب کے پابند ہیں
جہاں تک ہم ہیں

عمر کی سیڑھیاں

عمر کی سیڑھیاں

ہاں، سُنو دوستو
جو بھی دُنیا کہے
اُس کو پرکھے بِنا، مان لینا نہیں
ساری دُنیا یہ کہتی ہے
پربت پہ چڑھنے کی نِسبت اُترنا بہت سہل ہے

اے شام گواہی دے

اے شام گواہی دے 

بوسوں کی حلاوت سے جب ہونٹ سُلگتے ہيں
سانسوں کی تمازت سے جب چاند پگھلتے ہوں
اور ہاتھ کی دستک پر
جب بند قبا اُس کے، کھلنے کو مچلتے ہوں
عشق اور ہوس کے بيچ، کچھ فرق نہيں رہتا

میں ہوں جس مکان کی چھت تلے

نظم

میں ہوں جِس مکان کی چھت تلے
مرا گھر نہیں
ترا نام درج ہے جس جگہ
ترا در نہیں
تُجھے یاد ہے

کلام کرتی نہیں بولتی بھی جاتی ہے

کلام کرتی نہیں بولتی بھی جاتی ہے
تری نظر کو یہ کیسی زبان آتی ہے
کبھی کبھی مجھے پہچانتی نہیں وہ آنکھ
کبھی چراغ سے چاروں طرف جلاتی ہے
عجب تضاد میں پلتی ہے ترے وصل کی آس
کہ ایک آگ بُجھاتی ہے اک لگاتی ہے

دشت دل میں سراب تازہ ہیں

دشتِ دل میں سراب تازہ ہیں
بُجھ چکی آنکھ، خواب تازہ ہیں
داستانِ شکستِ دل ہے وہی
ایک دو چار باب تازہ ہیں
کوئی موسم ہو دل گُلستاں میں
آرزو کے گُلاب تازہ ہیں

زمین جلتی ہے اور آسمان ٹوٹتا ہے

زمین جلتی ہے اور آسمان ٹُوٹتا ہے
مگر گریز کریں ہم تو مان ٹوٹتا ہے
کوئی بھی کام ہو انجام تک نہیں جاتا
کسی کے دھیان میں پَل پَل یہ دھیان ٹوٹتا ہے
کہ جیسے مَتن میں ہر لفظ کی ہے اپنی جگہ
جو ایک فرد کٹے، کاروان ٹوٹتا ہے

زندگی درد بھی دوا بھی تھی

زندگی درد بھی، دوا بھی تھی
ہمسفر بھی، گریز پا بھی تھی
کچھ تو تھے دوست بھی وفا دُشمن
کچھ میری آنکھ میں حیا بھی تھی
دن کا اپنا بھی شور تھا لیکن
شب کی آواز بھی، صدا بھی تھی

Wednesday 18 July 2012

میں نہیں مانتا

دستور

میں نہیں مانتا

دِیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو، صبحِ بے نُور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا

جی دیکھا ہے مر دیکھا ہے

جی دیکھا ہے، مر دیکھا ہے
ہم نے سب کچھ کر دیکھا ہے
برگِ آوارہ کی صورت
رنگِ خشک و تر دیکھا ہے
ٹھنڈی آہیں بھرنے والو
ٹھنڈی آہیں بھر دیکھا ہے

مستقبل

مستقبل

تیرے لیے میں کیا کیا صدمے سہتا ہوں
سنگینوں کے راج میں بھی سچ کہتا ہوں
میری راہ میں مصلحتوں کے پھُول بھی ہیں
تیری خاطر کانٹے چُنتا رہتا ہوں
تُو آئے گا اسی آس پر جھُوم رہا ہے دل

اب وہی حرف جنوں سب کی زباں ٹھہری ہے

اب وہی حرفِ جنوں سب کی زباں ٹھہری ہے
جو بھی چل نکلی ہے وہ بات کہاں ٹھہری ہے
آج تک شیخ کے اکرام میں جو شے تھی حرام
اب وہی دشمنِ دِیں، راحتِ جاں ٹھہری ہے
ہے خبر گرم کہ پھرتا ہے گُریزاں ناصح
گُفتگو آج سرِ کُوئے بُتاں ٹھہری ہے

ترانہ ; دربارِ وطن میں جب اک دن سب جانے والے جائیں گے

ترانہ

دربارِ وطن میں جب اک دن سب جانے والے جائیں گے
کچھ اپنی سزا کو پہنچیں گے، کچھ اپنی جزا لے جائیں گے
اے خاک نشینو اٹھ بیٹھو، وہ وقت قریب آ پہنچا ہے
جب تخت گرائے جائیں گے، جب تاج اچھالے جائیں گے
اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں اب زندانوں کی خیر نہیں
جو دریا جھوم کے اُٹھے ہیں، تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے

یاد; دشت تنہائی میں اے جان جہاں لرزاں ہیں

یاد

دشتِ تنہائی میں، اے جانِ جہاں، لرزاں ہیں
تیری آواز کے سائے تیرے ہونٹوں کے سَراب
دشتِ تنہائی میں، دُوری کے خس و خاک تلے
کِھل رہے ہیں، تیرے پہلُو کے سمن اور گلاب
اُٹھ رہی ہے کہیں قُربت سے تیری سانس کی آنچ
اپنی خُوشبو میں سُلگتی ہوئی مدھم مدھم

تیرے غم کو جاں کی تلاش تھی

تیرے غم کو جاں کی تلاش تھی تیرے جاں نثار چلے گئے 
تیری رہ میں کرتے تھے سر طلب، سرِ رہگزار چلے گئے 
تیری کج ادائی سے ہار کے شبِ اِنتظار چلی گئی 
میرے ضبطِ حال سے روٹھ کر میرے غمگسار چلے گئے
نہ سوالِ وصل، نہ عرضِ غم، نہ حکایتیں نہ شکایتیں 
تیرے عہد میں دلِ زار کے سبھی اِختیار چلے گئے 

دل سے وصال یار کا ارمان بھی گیا

دل سے وصالِ یار کا ارمان بھی گیا
دیکھا جو گھر اُداس تو مہمان بھی گیا
کر لی ہے اس نے پھر غمِ جاناں سے دوستی
لو اپنے ہاتھ سے، دلِ نادان بھی گیا
مُشکل تھا اپنی راہ پہ لانا اُسے مگر
تھا بات میں خلوص، تو وہ مان بھی گیا

یاد غزال چشماں ذکر سمن عذاراں

یادِ غَزال چشماں، ذکرِ سمن عذاراں
جب چاہا کر لیا ہے کُنجِ قفس بہاراں
آنکھوں میں درد مندی، ہونٹوں پہ عُذر خواہی
جانانہ وار آئی شامِ فراقِ یاراں
ناموسِ جان و دل کی بازی لگی تھی ورنہ
آسان نہ تھی کچھ ایسی راہِ وفا شعاراں

وہیں ہے دل کے قرائن تمام کہتے ہیں

وہیں ہے دل کے قرائن تمام کہتے ہیں
وہ اِک خلش کہ جسے تیرا نام کہتے ہیں
تم آ رہے ہو کہ بجتی ہیں میری زنجیریں
نہ جانے کیا میرے دیوار و بام کہتے ہیں
یہی کنارِ فلک کا سیاہ تریں گوشہ
یہی ہے مطلعِ ماہِ تمام کہتے ہیں

کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں

کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں، کب ہات میں تیرا ہات نہیں
صد شکر کہ اپنی راتوں میں اب ہجر کی کوئی رات نہیں
مشکل ہے اگر حالات وہاں، دل بیچ آئیں جاں دے آئیں
دل والو! کوچۂ جاناں میں کیا ایسے بھی حالات نہیں
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے، اس جاں کی تو کوئی بات نہیں

خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا

خاطِر سے یا لِحاظ سے میں مان تو گیا
جھوٹی قسم سے آپ کا ایمان تو گیا
دِل لے کے مُفت کہتے ہیں کچھ کام کا نہیں
اُلٹی شکایتیں ہوئیں، اِحسان تو گیا
دیکھا ہے بُتکدے میں جو اے شیخ! کچھ نہ پُوچھ
ایمان کی تو یہ ہے کہ ایمان تو گیا

لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے

لُطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے
رنج بھی ایسے اُٹھائے ہیں کہ جی جانتا ہے
تم نہیں جانتے اب تک یہ تمہارے انداز
وہ میرے دل میں سمائے ہیں کہ جی جانتا ہے
اِنہی قدموں نے تمہارے اِنہی قدموں کی قسم
خاک میں اِتنے مِلائے ہیں کہ جی جانتا ہے

آئے کوئی تو بیٹھ بھی جائے ذرا سی دیر

آئے کوئی، تو بیٹھ بھی جائے، ذرا سی دیر
مُشتاقِ دِید، لُطف اُٹھائے، ذرا سی دیر
کچھ رہ گیا ہے قِصۂ غم وہ سُنا تو دوں
کاش! ان کو نیند اور نہ آئے، ذرا سی دیر
میں دیکھ لوں اُسے وہ نہ دیکھے مِری طرف
باتوں میں اُس کو کوئی لگائے، ذرا سی دیر

کھلی جو آنکھ تو وہ تھا نہ وہ زمانہ تھا

کُھلی جو آنکھ تو وہ تھا نہ وہ زمانہ تھا
دھکتی آگ تھی، تنہائی تھی، فسانہ تھا
غموں نے بانٹ لیا مجھے یوں آپس میں
کہ جیسے میں کوئی لُوٹا ہوا خزانہ تھا
یہ کیا کہ چند ہی قدموں پہ تھک کے بیٹھ گئے
تمہیں تو ساتھ میرا دور تک نِبھانا تھا

نظر کے پار دیا سا جلا کے دیکھ لیا

نظر کے پار دِیا سا جلا کے دیکھ لیا
تمہارے در پہ کئی بار جا کے دیکھ لیا
نئی طرح سے، نئے ڈھنگ سے ہوئے مجرُوح
قدم قدم پہ تمہیں آزما کے دیکھ لیا
جگر کی کِرچیاں کچھ اور بھی بِکھر سی گئیں
گو اپنی پلکوں سے ہم نے اُٹھا کے دیکھ لیا

Tuesday 17 July 2012

ہمارے گھر تباہ ہوں، غم و ملال کچھ بھی ہو

ہمارے گھر تباہ ہوں، غم و ملال کچھ بھی ہو
رہیں گے ہم اِسی جگہ ہمارا حال کچھ بھی ہو
جو سراپا خیر ہے، اُسی کا امتی ہوں میں
مِرا جواب پیار ہے، تِرا سوال کچھ بھی ہو
تمام مہرے سچ کے ہیں، ہم اہلِ حق کے ہاتھ ہیں
ہماری جِیت طے رہی کسی کی چال کچھ بھی ہو

صلیب سنگ پہ لکھا مرا فسانہ گیا

صلیبِ سنگ پہ لِکھا مِرا فسانہ گیا
میں رہگزر تھا مجھے روند کے زمانہ گیا
جبینِ سنگ پہ لکھا مِرا فسانہ گیا
میں رہگزر تھا مجھے روند کے زمانہ گیا
نقاب اوڑھ کے آئے تھے رات کے قزاق
پگھلتی شام سے سب دھوپ کا خزانہ گیا

آنسو كو واپس آنكھ ميں لايا نہ جائے گا

آنسو كو واپس آنكھ ميں لايا نہ جائے گا
موتی يہ گِر پڑا تو اٹھايا نہ جائے گا
اپنے يہی جلے ہوئے تِنكے سميٹ لوں
اب اور آشياں تو بنايا نہ جائے گا
وه دن قريب ہيں كہ مِرے عشق كا اثر
كوشش كرو گے اور چھپايا نہ جائے گا

رہیں گے چل کے کہیں اور اگر یہاں نہ رہے

رہیں گے چل کے کہیں اور اگر یہاں نہ رہے
بَلا سے اپنی جو آباد گُلستان نہ رہے
ہم ایک لمحہ بھی خوش زیرِ آسماں نہ رہے
غنیمت اِس کو سمجھیے کہ جاوِداں نہ رہے
ہمیں تو خود چمن آرائی کا سلیقہ ہے
جو ہم رہے تو گُلستاں میں باغباں نہ رہے

مست کر کے نگہ ہوشربا نے مجھ کو

مست کر کے نگہِ ہوشربا نے مجھ کو
بزمِ ساقی میں لگایا ہے ٹھکانے مجھ کو
لطف پروردۂ فطرت ہے سحر گشت مِرا
کہ نسیمِ سحر آتی ہے جگانے مجھ کو
ہاتھ رکنے نہ دیا مشقِ جفا نے ان کا
چین لینے نہ دیا شوقِ وفا نے مجھ کو

دل کی بساط کیا تھی نگاہ جمال میں

دل کی بساط کیا تھی نگاہِ جمال میں
ایک آئینہ تھا ٹوٹ گیا دیکھ بھال میں
صبر آ ہی جائے گر بسر ہو ایک حال میں
اِمکاں اِک اور ظلم ہے قیدِ محال میں
آزردہ ہوں اِس قدر سرابِ خیال سے
جی چاہتا ہے تم بھی نہ آؤ خیال میں

Monday 16 July 2012

شاید جگہ نصیب ہو اس گل کے ہار میں

شاید جگہ نصیب ہو اس گُل کے ہار میں
میں پھول بن کے آؤں گا، اب کی بہار میں
خَلوَت خیالِ یار سے ہے انتظارمیں
آئیں فرشتے لے کے اِجازت مزار میں
ہم  کو تو جاگنا ہے تِرے انتظار میں
آئی ہو جس کو نیند وہ سوئے مزار میں

لگتا نہیں ہے جی مرا اجڑے دیار میں

لگتا نہیں ہے جی مِرا اجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عالمِ ناپائیدار میں
بلبل کو باغباں سے نہ صیاد سے گِلہ
قسمت میں قید لکھی تھی فصلِ بہار میں
کہہ دو اِن حسرتوں سے کہیں اور جا بسیں
اتنی جگہ کہاں ہے دلِ داغدار میں

مرے خدا مرے لفظ و بیاں میں ظاہر ہو

مِرے خُدا مِرے لفظ و بیاں میں ظاہر ہو
اِسی شکستہ و  بستہ زباں میں ظاہر ہو
زمانہ دیکھے میرے حرفِ بازیاب کے رنگ
گلِ مُرادِ ہُنر دشتِ جاں میں ظاہر ہو
میں سخر و نظر آں کلام ہوں کہ سکوت
تِری عطا، مِرے نام و نشاں میں ظاہر ہو

جب کھلکھلا کے ساقی گلفام ہنس پڑا

جب کھلکھلا کے ساقئ گلفام ہنس پڑا
 شیشے نے قہقہے کیے اور جام ہنس پڑا
 غنچے کا منہ ہے کیا کہ تبسم کرے گا پھر
 گلشن میں گر وہ شوخِ گل اندام ہنس پڑا
 دنداں کی تاب دیکھ کے انجم ہوئے خجل
 وہ مہ جبیں جو شب کو لبِ بام ہنس پڑا

داغ دل ہم کو یاد آنے لگے

داغِ دل ہم کو یاد آنے لگے
لوگ اپنی دِیے جلانے لگے
کچھ نہ پا کر بھی مطمئن ہیں ہم
عشق میں ہاتھ کیا خزانے لگے
خُود فریبی سی خُود فریبی ہے
پاس کے ڈھول بھی سُہانے لگے

کوئی ہجر میرے وصال سے ہے بندھا ہوا

کوئی ہجر میرے وصال سے ہے بندھا ہوا
کہ یہ سلسلہ مہ و سال سے ہے بندھا ہوا
تیرا کل بھی ہو گا میری وفاؤں کی قید میں
تیرا ماضی بھی میرے حال سے ہے بندھا ہوا
میری جیت بھی کسی ہار سے ہے جُڑی ہوئی
سو عرُوج میرا زوال سے ہے بندھا ہوا

اپنا تو شناسا نہیں اس شہر میں کوئی

اپنا تو شناسا نہیں اس شہر میں کوئی
جُھوٹا بھی دلاسا نہیں اس شہر میں کوئی
ہر شخص لیے پھرتا ہے مشکیزۂ بے آب
جس طرح کہ پیاسا نہیں اس شہر میں کوئی
تھک ہار کے بیٹھیں گے کہاں تیرے مسافر
سایہ تو ذرا سا نہیں اس شہر میں کوئی

بس اک دو پل کہاں دکھ بولتے ہیں

بس اک دو پل کہاں دُکھ بولتے ہیں
یہاں تو جاوداں دُکھ بولتے ہیں
جہاں تُو ہے وہاں خُوشیاں ہیں لاکھوں
جہاں میں ہوں وہاں دُکھ بولتے ہیں
مِرا دل بھی سمندر کی طرح ہے
اور اس میں بیکراں دُکھ بولتے ہیں

درختوں سے جدا ہوتے ہوئے پتے اگر بولیں

درختوں سے جُدا ہوتے ہُوئے پتّے اگر بولیں
تو جانے کتنے بُھولے بِسرے افسانوں کے در کھولیں
اکٹّھے بیٹھ کر باتیں نہ پھر شاید میسّر ہوں
چلو ان آخری لمحوں میں جی بھر کر ہنسیں بولیں
ہَوا میں بس گئی ہے پھر کسی کے جسم کی خُوشبو
خیالوں کے پرندے پھر کہیں اُڑنے کو پر تولیں

اسے تو کھو ہی چکے پھر خیال کیا اس کا

اُسے تو کھو ہی چکے پھر خیال کیا اُس کا
یہ فکر کیسی کہ اب ہو گا حال کیا اُس کا
وہ ایک شخص جسے خود ہی چھوڑ بیٹھے تھے
گُھلائے دیتا ہے دل کو ملال کیا اُس کا
تمہاری آنکھوں میں چھلکیں ندامتیں کیسے 
جواب بننے لگا تھا سوال کیا اُس کا

مہرباں کوئی نظر آئے تو سمجھوں تو ہے

مہرباں کوئی نظر آئے تو سمجھوں تُو ہے
پھول مہکیں تو یہ جانُوں کہ تیری خُوشبُو ہے
عقل تسلیم نہیں کرتی، پہ دل مانتا ہے
وہ کوئی معجزہ ہے، وہم ہے یا جادُو ہے
اب تیرا ذکر کریں گے نہ تجھے یاد کبھی
ہاں مگر دل کے دھڑکنے پہ کسے قابُو ہے

کسی کو دیکھوں تو ماتھے پہ ماہ و سال ملیں

کسی کو دیکھوں تو ماتھے پہ ماہ و سال ملیں
کہیں بکھرتی ہُوئی دھول میں سوال ملیں
ذرا سی دیر دسمبر کی دھوپ میں بیٹھیں
یہ فرصتیں ہمیں شاید نہ اگلے سال ملیں
یہ شعر و شاعری سب ہے عطا ان آنکھوں کی
وہ اک نگاہ اُٹھائے تو سو خیال مِلیں

بیمار ہیں تو اب دم عیسیٰ کہاں سے آئے

بیمار ہیں تو اب دمِ عیسیٰ کہاں سے آئے
اُس دل میں دردِ شوقِ تمنا کہاں سے آئے
بے کار شرحِ لفظ و معنی سے فائدہ
جب تُو نہیں تو شہر میں تُجھ سا کہاں سے آئے
ہر چشم سنگِ خذب و عداوت سے سُرخ ہے
اب آدمی کو زندگی کرنا کہاں سے آئے

Sunday 15 July 2012

رات کی رانی کی خوشبو سے

رات کی رانی کی خوشبو سے کوئی یہ کہہ دے 

رات کی رانی کی خوشبو سے کوئی یہ کہہ دے
آج کی شب نہ مِرے پاس آئے
آج تسکینِ مشامِ جاں کو
دل کے زخموں کی مہک کافی ہے
یہ مہک، آج سرِشام ہی جاگ اٹھی ہے

وہ جس سے رہا آج تک آواز کا رشتہ

وہ جس سے رہا آج تک آواز کا رشتہ
بھیجے مِری سوچوں کو اب الفاظ کا رشتہ
تِتلی سے مِرا پیار کچھ ایسے بھی بڑھا ہے
دونوں میں رہا لذتِ پرواز کا رشتہ
سب لڑکیاں اِک دوسرے کو جان رہی ہیں
یوں عام ہوا مسلکِ شہناز کا رشتہ

ایسے ہوئے برباد تیرے شہر میں آ کر

ایسے ہُوئے برباد تیرے شہر میں آ کر
کچھ بھی نہ رہا یاد تیرے شہر میں آ کر
کیا دن تھے چہکتے ہُوئے اڑتے تھے پرندے
اب کون ہے آزاد تیرے شہر میں آ کر
یہ دن ہیں کہ چُھپتے ہُوئے بھرتے ہیں سرِشام
سب لوگ ہیں ناشاد تیرے شہر میں آ کر

ہوا کے رخ پر چراغ الفت کی لو بڑھا کر

ہوا کے رُخ پر چراغِ اُلفت کی لو بڑھا کر چلا گیا ہے
وہ اِک دِیے سے نہ جانے کتنے دِیے جلا کر چلا گیا ہے
ہم اس کی باتوں کی بارشوں میں ہر ایک موسم میں بھیگتے ہیں
وہ اپنی چاہت کے سارے منظر ہمیں دِکھا کر چلا گیا ہے
اسی کے بارے میں حرف لکھے اسی پہ ہم نے غزل کہی
جو کجلی آنکھوں سے میرے دل میں نقب لگا کر چلا گیا ہے

Saturday 14 July 2012

ہم بندگاں تو نذرِ وفا ہونے والے ہیں

ہم بندگاں تو نذرِ وفا ہونے والے ہیں
پھر آپ لوگ کِس کے خدا ہونے والے ہیں
اِس طرح مطمئن ہیں مِرے شب گزیدگاں
جیسے یہ سائے ظلِ ہما ہونے والے ہیں
بے چارے، چارہ سوزئی آزار کیا کریں
دو ہاتھ ہیں، سو محوِ دعا ہونے والے ہیں

وہ خدا ہے کہ صنم ہاتھ لگا کر دیکھیں

وہ خدا ہے کہ صنم، ہاتھ لگا کر دیکھیں
آج اس شوخ کو نزدیک بلا کر دیکھیں
ایک جیسے ہیں سبھی گلبدنوں کے چہرے
کس کو تشبیہ کا آئینہ دِکھا کر دیکھیں
کیا تعجب کوئی تعبیر دِکھائی دے جائے
ہم بھی آنکھوں میں کوئی خواب سجا کر دیکھیں

خوشبو کی طرح ساتھ لگا لے گئی ہم کو

خوشبو کی طرح ساتھ لگا لے گئی ہم کو
کوچے سے تِرے بادِ صبا لے گئی ہم کو 
پتھر تھے کہ گوہر تھے، اب اِس بات کا کیا ذکر
اِک موج بہرحال بہا لے گئی ہم کو 
پھر چھوڑ دیا ریگِ سرِ راہ سمجھ کر
کچھ دور تو موسم کی ہوا لے گئی ہم کو 

تشنہ رکھا ہے نہ سرشار کیا ہے اس نے

 تشنہ رکھا ہے، نہ سرشار کیا ہے اس نے 

میں نے پوچھا ہے تو اِقرار کیا ہے اس نے

گِر گئی قیمتِ شمشاد قداں آنکھوں میں

شہر کو مصر کا بازار کیا ہے اس نے

وہ یہاں ایک نئے گھر کی بِنا ڈالے گا

خانۂ درد کو مسمار کیا ہے اس نے

ایک ضد تھی مرا پندار وفا کچھ بھی نہ تھا

ایک ضد تھی، مِرا پندارِ وفا کچھ بھی نہ تھا
ورنہ ٹوٹے ہوئے رِشتوں میں بچا کچھ بھی نہ تھا
تھا بہت کچھ جو کوئی دیکھنے والا ہوتا
یوں کسی شخص کے چہرے پہ لکھا کچھ بھی نہ تھا
اب بھی چپ رہتے تو مجرم نظر آتے ورنہ
سچ تو یہ ہے کہ ہمیں شوقِ نوا کچھ بھی نہ تھا

جب یہ عالم ہو تو لکھیے لب و رخسار پہ خاک

جب یہ عالم ہو تو لکھیے لب و رخسار پہ خاک
اڑتی ہے خانۂ دل کے در و دیوار پہ خاک
تُو نے مٹّی سے الجھنے کا نتیجہ دیکھا
ڈال دی میرے بدن نے تِری تلوار پہ خاک
ہم نے مدّت سے اُلٹ رکھا ہے کاسہ اپنا
دستِ زردار ترے درہم و دینار پہ خاک

سخن میں رنگ تمہارے خیال ہی کے تو ہیں

سخن میں رنگ تمہارے خیال ہی کے تو ہیں
یہ سب کرشمے ہوائے وصال ہی کے تو ہیں
یہاں بھی اس کے سوا اور کیا نصیب ہمیں
ختن میں رہ کے بھی چشمِ غزل ہی کے تو ہیں
جسارتِ سخنِ شاعراں سے ڈرنا کیا
غریب مشغلۂ قیل و قال ہی کے تو ہیں

اسی دنیا میں مرا کوئے نگاراں بھی تو ہے

اِسی دنیا میں مِرا کوئے نگاراں بھی تو ہے
ایک گھر بھی تو ہے، اِک حلقۂ یاراں بھی تو ہے
آ ہی جاتی ہے کہیں موجِ ہوائے نمناک
اس مسافت میں کہیں خطۂ باراں بھی تو ہے
راستوں پر تو ابھی برگِ خزاں اڑتے ہیں
خیر، اطراف میں خوشبوئے بہاراں بھی تو ہے

اک گھرانہ پھول والا ایک گھر خوشبو کا ہے

اِک گھرانہ پھول والا، ایک گھر خوشبو کا ہے
بس اسی کے فیض سے، سارا نگر خوشبو کا ہے
سبز گنبد چومتے رہتے ہیں، جتنے بھی پرند
ان کے لب خوشبو کے ہیں، اِک ایک پَر خوشبو کا ہے
مدتیں گزریں کہ گزرا تھا، کوئی مشکیں بدن
آج تک ان راستوں ہی میں، گزر خوشبو کا ہے

بدن کو زخم کریں خاک کو لبادہ کریں

بدن کو زخم کریں خاک کو لبادہ کریں
جنوں کی بھولی ہوئی رسم کا اعادہ کریں
تمام اگلے زمانوں کو یہ اجازت ہے
ہمارے عہدِ گزشتہ سے اِستفادہ کریں
انہیں اگر مِری وحشت کو آزمانا ہے
زمیں کو سخت کریں دشت کو کشادہ کریں

کاٹتے بھی ہیں اسی فصل کو بونے والے

کاٹتے بھی ہیں اِسی فصل کو بونے والے
ڈوب بھی جاتے ہیں اِک روز ڈبونے والے
لاش ابھری تو کئی نام لِکھے تھے اس پر
کتنے حیران ہوئے مجھ کو ڈبونے والے
کچھ تو اِس سادہ مزاجی کا صِلہ دے ان کو
کس قدر جلد بہل جاتے ہیں رونے والے

کبھی تو یوں ہو کہ دونوں کا کام چل جائے

کبھی تو یوں ہو کہ دونوں کا کام چل جائے
ہَوا بھی چلتی رہے اور دِیا بھی جل جائے
یہی لگے کہ حقیقت میں کچھ ہوا ہی نہ تھا
جو سانحہ تھا کسی خواب میں بدل جائے
ڈرو کہ وقت کے ہاتھوں میں ساری بازی ہے
نہ جانے کون سی کس وقت چال چل جائے

عجیب حال یہاں دھوپ کے دیار میں تھا

عجیب حال یہاں دھوپ کے دیار میں تھا
شجر خود اپنے ہی سائے کے اِنتظار میں تھا
نہ جانے کون سے موسم میں پھول کِھلتے ہیں
یہی سوال خزاں میں، یہی بہار میں تھا
ہر ایک سمت سے لشکر ہوا کے آئے تھے
اور اِک چراغ ہی میدانِ کارزار میں تھا

بہت گمان تھا موسم شناس ہونے کا

بہت گمان تھا، موسم شناس ہونے کا
وہی بہانہ بنا ہے، اداس ہونے کا
بدن کو کاڑھ لیا، زخم کے گلابوں سے
تو شوق پورا کیا، خوش لباس ہونے کا
فضا مہکنے لگے، روشنی جھلکنے لگے
تو یہ نشاں ہے، تِرے آس پاس ہونے کا

رستے کا انتخاب ضروری سا ہو گیا

رستے کا انتخاب ضروری سا ہو گیا
اب اختتام باب ضروری سا ہو گیا
ہم چپ رہے تو اور بھی الزام آئے گا
اب کچھ نہ کچھ جواب ضروری سا ہو گیا
ہم ٹالتے رہے کہ یہ نوبت نہ آنے پائے
پھر ہِجر کا عذاب ضروری سا ہو گیا

بہت گہرا ہے اپنا تاجرانہ پیار آپس میں

بہت گہرا ہے اپنا تاجرانہ پیار آپس میں
کہ ہم کرتے ہیں سمجھوتوں کا کاروبار آپس میں
کبھی ٹکرا بھی جاتے ہیں جو برتن ساتھ رہتے ہیں
ہماری ہو بھی جاتی ہے کبھی تکرار آپس میں
یہاں دو سوختہ دل بھی اکٹھے رہ نہیں پاتے
جڑے رہتے ہیں لیکن سینکڑوں کہسار آپس میں

ہونٹوں کے دو پھول رکھے تھے اس نے جب پیشانی پر

ہونٹوں کے دو پھول رکھے تھے اس نے جب پیشانی پر
چاند ہنسا تھا دیکھ کے ہم کو پاس ندی کے پانی پر
جگمگ جگمگ کرتی آنکھیں مجھ کو اچھی لگتی ہیں
قصہ لمبا کر دیتا ہوں بچوں کی حیرانی پر
یہ بھی کوئی باتیں ہیں جن پر آنکھیں کھل جاتی ہیں
میں حیران ہوا کرتا ہوں دنیا کی حیرانی پر

کھو چکے ہیں جس کو وہ جاگیر لے کر کیا کریں

کھو چکے ہیں جس کو وہ جاگیر لے کر کیا کریں
اِک پرائے شخص کی تصویر لے کر کیا کریں
ہم زمیں زادے، ستاروں سے ہمیں کیا واسطہ؟
دل میں ناحق خواہشِ تسخیر لے کر کیا کریں
عالموں سے زائچے بنوائیں کس اُمید پر
خواب ہی اچھے نہ تھے تعبیر لے کر کیا کریں

میں نے راتوں کو بہت سوچا ہے تم بھی سوچنا

میں نے راتوں کو بہت سوچا ہے تم بھی سوچنا
فیصلہ کن موڑ آ پہنچا ہے تم بھی سوچنا
سوچنا ممکن ہے کیسے اس جدائی کا علاج ؟
حال ہم دونوں کا اِک جیسا ہے تم بھی سوچنا
پل تعلق کا شکستہ کیوں ہوا، سوچوں گا میں
دور نیچے ہجر کا دریا ہے تم بھی سوچنا

اختلاف اس سے اگر ہے تو اسی بات پہ ہے

اختلاف اس سے اگر ہے تو اسی بات پہ ہے
زور سب اس کا فقط اپنے مفادات پہ ہے
اپنے آیندہ تعلق کا تو اب دار و مدار
تیری اور میری ہم آہنگئ جذبات پہ ہے
دل کو سمجھایا کئی بار کہ باز آ جائے
پھر بھی کمبخت کو اصرار ملاقات پہ ہے

یہ آنکھ کیوں ہے یہ ہاتھ کیا ہے

یہ آنکھ کیوں ہے یہ ہاتھ کیا ہے
یہ دن ہے کیا چیز رات کیا ہے
فراقِ خورشید و ماہ کیوں ہے
یہ ان کا اور میرا ساتھ کیا ہے
گماں ہے کیا اس صنم کدے پر
خیالِ مرگ و حیات کیا ہے

تھی جس کی جستجو وہ حقیقت نہیں ملی

تھی جس کی جستجو وہ حقیقت نہیں ملی 
ان بستیوں میں ہم کو، رفاقت نہیں ملی
اب تک میں اس گُماں میں کہ ہم بھی ہیں دہر میں
اس وہم سے نجات کی، صورت نہیں ملی
رہنا تھا اس کے ساتھ بہت دیر تک، مگر 
ان روز و شب میں مجھ کو یہ فُرصت نہیں ملی

زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا

زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا
دنیا سے خامشی سے گزر جائیں ہم تو کیا
ہستی ہی اپنی کیا ہے زمانے کے سامنے
اِک خواب ہے جہاں میں بِکھر جائیں ہم تو کیا
اب کون منتظر ہے ہمارے لیے وہاں
شام آ گئی ہے لوٹ کے گھر جائیں تو ہم کیا

وہ جو اپنا یار تھا دیر کا کسی اور شہر میں جا بسا

وہ جو اپنا یار تھا دیر کا کسی اور شہر میں جا بسا
کوئی شخص اس کے مکان میں کسی اور شہر کا آ بسا
یہی آنا جانا ہے زندگی، کہیں دوستی کہیں اجنبی
یہی رشتہ کارِ حیات ہے کبھی قرب کا کبھی دور کا
ملے اس میں لوگ رواں دواں کوئی بے وفا کوئی با وفا
کٹی عمر یہاں وہاں، کہیں دل لگا کہ نہیں لگا

یہ کیسا نشہ ہے میں کس عجب خمار میں ہوں

یہ کیسا نشہ ہے، میں کس عجب خمار میں ہوں 
تو آ کے جا بھی چکا ہے، میں انتظار میں ہوں 
مکاں ہے قبر، جسے لوگ خود بناتے ہیں 
میں اپنے گھر میں ہوں یا میں کس مزار میں ہوں 
درِ فصیل کھلا، یا پہاڑ سر سے ہٹا 
میں اب گِری ہوئی گلیوں کے مرگزار میں ہوں 

Friday 13 July 2012

کھل رہی ہے رفتہ رفتہ زلف شام یاد پھر

کھل رہی ہے رفتہ رفتہ زلف شام یاد پھر
ڈوبتا ہے اس اندھیرے میں دل برباد پھر
اپنے اپنے انتخاب آرزو کی بات ہے
شاد ہوتا ہے کوئی دل اور کوئی ناشاد پھر
گہرے نیلے جنگلوں سے گھوم کر نکلے تو تھا
سامنے اک قریۂ بے خواب و بے آباد پھر

اس کے بغیر اگرچہ میری عمر کٹ گئی

اس کے بغیر اگرچہ میری عمر کٹ گئی
لیکن حیات کتنے عناصر میں بٹ گئی 
میں نے اسے خرید لیا چاہتوں کے بھاؤ
پھر یوں ہوا کہ قیمتِ بازار گھٹ گئی
بیٹھی ہوئی تھی اوٹ میں خوابوں کی چاندنی
میں دیکھنے لگا تو دریچے سے ہٹ گئی

آشیاں جل گیا گلستاں لٹ گیا

آشیاں جل گیا، گلستاں لُٹ گیا، ہم قفس سے نکل کر کِدھر جائیں گے
اتنے مانوس صیاد سے ہو گئے، اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے
اور کچھ دن یہ دستورِ مے خانہ ہے، تشنہ کامی کے یہ دن گزر جائیں گے
میرے ساقی کو نظریں اٹھانے تو دو، جتنے خالی ہیں سب جام بھر جائیں گے
اے نسیمِ سحر! تجھ کو ان کی قسم، ان سے جا کر نہ کہنا مِرا حالِ غم
اپنے مِٹنے کا غم تو نہیں ہے مگر، ڈر یہ ہے ان کے گیسُو بکھر جائیں گے

یہ کون آتا ہے تنہائیوں میں جام لئے

یہ کون آتا ہے تنہائیوں میں جام لیے
دلوں میں چاندنی راتوں کا اہتمام لیے
چٹک رہی ہے کسی یاد کی کلی دل میں
نظر میں رقصِ بہاراں کی صبح شام لیے
مہک مہک کے جگاتی رہی نسیمِ سحر
لبوں پہ یارِ مسیحا نفس کا نام لیے

توڑ کر عہد کرم نا آشنا ہو جایئے

توڑ کر عہدِ کرم ناآشنا ہو جائیے
بندہ پرور جائیے اچھا خفا ہو جائیے
میرے عذرِ جرم پر مطلق نہ کیجئے اِلتفات
بلکہ پہلے سے بھی بڑھ کر کج ادا ہو جائیے
راہ میں مِلیے کبھی مجھ سے تو از راہِ سِتم
ہونٹ اپنا کاٹ کر فوراً جدا ہو جائیے

رغبت مجھے اس واسطے بازار سے کم ہے

رغبت مجھے اس واسطے بازار سے کم ہے
موجود مِری جیب میں درکار سے کم ہے
برگد کے گھنے پیڑ تلے رک تو گئے ہیں
سایہ مگر اس کا تِری دیوار سے کم ہے
یہ سوچ کے زنجیر ہلائی نہیں میں نے
دکھ میرا ابھی تک تِرے معیار سے کم ہے

دل کہ ویران اسے اور بھی ویران کیا

دل، کہ ویران، اسے اور بھی ویران کیا
یوں تیرے ہجر کی تکمیل کا سامان کیا
روشنی دیکھ کے بے وقت پرندے جاگے
پھر پرندوں نے میرے خواب کا نقصان کیا
شہر کی آگ ہوئی سرد، تو میں نے، اپنی
راکھ سے اٹھ کے نئی جنگ کا اعلان کیا

تمہارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا

تمہارے خط میں نیا اِک سلام کس کا تھا
نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا
وہ قتل کر کے مجھے ہر کسی سے پوچھتے ہیں
یہ کام کس نے کیا ہے، یہ کام کس کا تھا
وفا کریں گے، نباہیں گے، بات مانیں گے
تمہیں بھی یاد ہے کچھ، یہ کلام کس کا تھا

وہ اجنبی تھا غیر تھا کس نے کہا نہ تھا

وہ اجنبی تھا غیر تھا کس نے کہا نہ تھا
دل کو مگر یقین کسی پر ہوا نہ تھا
ہم کو تو احتیاطِ غمِ دل عزیز تھی
کچھ اِس لیے بھی کم نِگہی کا گِلہ نہ تھا
دستِ خیالِ یار سے چھوٹے شفق کے رنگ
نقشِ قدم بھی رنگِ حنا کے سوا نہ تھا

انہی خوش گمانیوں میں کہیں جاں سے بھی نہ جاؤ

اِنہی خوش گمانیوں میں کہیں جاں سے بھی نہ جاؤ
وہ جو چارہ گر نہیں ہے اسے زخم کیوں دکھاؤ
یہ اداسیوں کے موسم یونہی رائیگاں نہ جائیں
کسی یاد کو پکارو، کسی درد کو جگاؤ
وہ کہانیاں ادھوری، جو نہ ہو سکیں گی پوری
انہیں میں بھی کیوں سناؤں انہیں تم بھی کیوں سناؤ

کرنے کو تو ہر بات کو ہم یاد کریں گے

کرنے کو تو ہر بات کو ہم یاد کریں گے
پر تجھ کو بہت تیری قسم! یاد کریں گے
جس سر کی تیرے شہر میں توہین ہوئی ہے
اِس سر کو تیرے نقشِ قدم یاد کریں گے
غیروں کو تو کیا رنج میری موت کا ہو گا
احباب بھی دو چار قدم یاد کریں گے

کسی کلی نے بھی دیکھا نہ آنکھ بھر کے مجھے

کسی کلی نے بھی دیکھا نہ آنکھ بھر کے مجھے
گزر گئی جرسِ گل اداس کر کے مجھے 
میں سو رہا تھا کسی یاد کے شبستاں میں
جگا کے چھوڑ گئے قافلے سحر کے مجھے 
میں رو رہا تھا مقدّر کی سخت راہوں میں
اڑا کے لے گئے جادو تری نظر کے مجھے

قرار چھين ليا بے قرار چھوڑ گئے

قرار چھِين ليا بے قرار چھوڑ گئے
بہار لے گئے يادِ بہار چھوڑ گئے

ہماری چشمِ حزيں کا خيال کچھ نہ کيا
وہ عمر بھر کے لیے اشکبار چھوڑ گئے
جسے سمجھتے تھے اپنا وہ اتنی مدّت سے
اسی کو آج وہ بے گانہ وار چھوڑ گئے

وہ باتیں تری وہ فسانے ترے

وہ باتیں تِری وہ فسانے تِرے
شگفتہ شگفتہ بہانے تِرے
بس اِک داغ سجدہ مری کائنات
جینیں تِری آستانے تِرے
بس اِک زخم نظارہ حصہ مِرا
بہاریں تِری بادہ خانے تِرے

یوں جستجوئے یار میں آنکھوں کے بل گئے

یوں جستجوئے یار میں آنکھوں کے بَل گئے
ہم کوئے یار سے بھی کچھ آگے نکل گئے
واقف تھے تیری چشمِ تغافل پسند سے
وہ رنگ جو بہار کے سانچے میں ڈھل گئے
اے شمع! ان پتنگوں کی تجھ کو کہاں خبر
جو اپنے اشتیاق کی گرمی سے جل گئے

یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے

یہ آرزو تھی تجھے گُل کے رُوبرُو کرتے
ہم اور بلبلِ بے تاب گفتگو کرتے
پیامبر نہ میسر ہوا تو خوب ہوا
زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے
مِری طرح سے مہ و مہر بھی ہیں آوارہ
کسی حبیب کی یہ بھی ہیں جستجو کرتے

شب وصل تھی چاندنی کا سماں تھا

شبِ وصل تھی، چاندنی کا سماں تھا
بغل میں صنم تھا، خدا مہربان تھا
مبارک شبِ قدر سے بھی وہ شب تھی
سمر تک مرد مشتری کا قرآن تھا
وہ شب تھی کہ تھی روشنی جس میں دن کی
زمین پر سے اِک نور تا آسمان تھا

یار کو میں نے مجھے یار نے سونے نہ دیا

یار کو  میں نے  مجھے یار نے سونے نہ دیا
رات بھر طالع بیدار نے سونے نہ دیا
خاک پر سنگِ درِ یار نے سونے نہ دیا
دھوپ میں سایۂ دیوار نے سونے نہ دیا
شام سے وصل کی شب آنکھ نہ جھپکی تا صبح
شادئ دولتِ دیدار نے سونے نہ دیا

نہ بھول کر بھی تمنائے رنگ و بو کرتے

نہ بھول کر بھی تمنائے رنگ و بو کرتے
چمن کے پھول اگر تیری آرزو کرتے
جنابِ شیخ پہنچ جاتے، حوضِ کوثر تک
اگر شراب سے میخانے میں وضو کرتے
مسرت! آہ تُو بستی ہے کِن ستاروں میں
زمیں پہ، عمر ہوئی تیری جستجو کرتے

مستانہ پئے جا یونہی مستانہ پئے جا

مستانہ پیے جا، یونہی مستانہ پیے جا
پیمانہ تو کیا چیز ہے، مۓ خانہ پیے جا
کر غرق مۓ و جام، غمِ گردشِ ایام
ہاں اے دلِ ناکام! حکیمانہ پیے جا
مے نوشی کے آداب سے آگاہ نہیں تُو
جس طرح کہے ساقئ مۓ خانہ پیے جا

محبت کی دنیا میں مشہور کر دوں

محبت کی دنیا میں مشہور کر دوں
میرے سادہ دل، تجھ کو مغرور کر دوں
تیرے دل کو ملنے کی خود آرزُو ہو
تجھے اس قدر غم سے رنجور کر دوں
مجھے زندگی دُور رکھتی ہے تجھ سے
جو تُو پاس ہو تو اسے دور کر دوں

اے عشق ہمیں برباد نہ کر

اے عشق ہمیں برباد نہ کر

اے عشق نہ چھیڑ آ آ کے ہمیں، ہم بھولے ہوؤں کو یاد نہ کر
پہلے ہی بہت ناشاد ہیں ہم، تُو اور ہمیں ناشاد نہ کر
قسمت کا ستم ہی کم نہیں کچھ، یہ تازہ ستم ایجاد نہ کر
یوں ظلم نہ کر، بیداد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر

اے عشق کہیں لے چل

اے عشق کہیں لے چل

اے عشق کہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل، اس پاپ کی بستی سے
نفرت گہِ عالم سے، لعنت گہِ ہستی سے
ان نفس پرستوں سے، اِس نفس پرستی سے
دُور اور کہیں لے چل

Thursday 12 July 2012

تم گھوم آئے بستی بستی کیا دیکھا ہے کوئی ہم سا بھی

تُم گھوم آئے بستی بستی، کیا دیکھا ہے کوئی ہم سا بھی
سُن آئے ہو تم نظمیں سب کی کیا لہجہ ہے کوئی ہم سا بھی
اس بے خوفی سے حالِ دل، کیا لکھتا ہے کوئی ہم سا بھی
یُوں شعر بہت ہیں جانِ صدفؔ کیا مصرع ہے کوئی ہم سا بھی
تُم چاند سے مُکھڑے دیکھ چکے، پُھولوں سے مہکتے آنچل بھی  
خوابوں کے پری خانے میں کہو، کیا چہرہ ہے کوئی ہم سا بھی

Wednesday 11 July 2012

تو مخاطب تھا کوئی بات وہ کرتا کیسے

تُو مخاطب تھا، کوئی بات وہ کرتا کیسے
تیری آنکھوں میں جو ڈوبا تھا، ابھرتا کیسے
میں جسے عمرِ گریزاں سے چرا لایا تھا
وہ تِرے وصل کا لمحہ تھا گزرتا کیسے
میری مٹی میں فرشتوں نے اسے گوندھا تھا
میرے پیکر سے تِرا رنگ اُترتا کیسے

ہم جو کہنے کو خزاں میں بھی ہرے رہتے ہیں

ہم جو کہنے کو خزاں میں بھی ہرے رہتے ہیں
موسمِ گُل میں بھی اندر سے مِرے رہتے ہیں
تم کو آنا ہو تو آ جاؤ مگر یاد رہے
ہم ذرا اپنے زمانے سے پرے رہتے ہیں
ہاں کبھی اپنے بھی ہمسائے ہوا کرتے تھے
اب تو ہم اپنے ہی سائے سے ڈرے رہتے ہیں

سانجھ سویرے اپنے آپ سے لڑتا ہوں

سانجھ سویرے اپنے آپ سے لڑتا ہوں
رات گئے پھر اپنے پاؤں پڑتا ہوں
دن کی کھڑکی کھلتے ہی اُڑ جاتے ہیں
سوچوں کے جو پنچھی روز پکڑتا ہوں
رات کو آنسو چُن کر بھیگی پلکوں سے
آنچل آنچل چاند ستارے جڑتا ہوں

کیا طبیعت تھی کسی راہ پہ ڈالی نہ گئی

کیا طبیعت تھی کسی راہ پہ ڈالی نہ گئی
کٹ گئی عمر مگر خام خیالی نہ گئی
اِک عذابِ غمِ دوراں تھا کہ جھیلا نہ گیا
اِک بلائے غمِ جاناں تھی کہ ٹالی نہ گئی
ایسا بھونچال مِرے شہرِ بدن میں آیا
دل کی گرتی ہوئی دیوار سنبھالی نہ گئی

گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے

گُلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
قفس اُداس ہے یارو! صبا سے کچھ تو کہو
کہیں تو بہرِ خدا آج ذکرِ یار چلے
کبھی تو صبح کنجِ لب سے ہو آغاز
کبھی تو شب سرِ کاکل سے مشکبار چلے

روندے ہے نقش پا کی طرح خلق ياں مجھے

روندے ہے نقش پا کی طرح خلق ياں مجھے
اے عُمر رفتہ چھوڑ گئی تُو کہاں مجھے
اے گُل تُو رخت باندھ، اُٹھاؤں ميں آشياں
گُل چيں تُجھے نہ ديکھ سکے باغباں مجھے
رہتی ہے کوئی بن کيے ميرے تئيں تمام
جُوں شمع چھوڑنے کی نہيں يہ زباں مجھے

دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی

دل میں اک لہر سی اُٹھی ہے ابھی
کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی
شور برپا ہے خانۂ دل میں
کوئی دیوار سی گری ہے ابھی
کچھ تو نازک مزاج ہیں ہم بھی
اور یہ چوٹ بھی نئی ہے ابھی

وہی مجھ پہ غصہ وہی یاں سے جا تو

وہی مجھ پہ غصہ وہی یاں سے جا تُو
وہی دور ہو تُو وہی پھر نہ آ تُو
میرا اس کا وعدہ ملاقات کا ہے
کوئی روز اے عمر کیجیو وفا تُو
بہت پوچھیو دل کو میری طرف سے
اگر جائے اس کی گلی میں صبا تُو

گلابوں کے نشیمن سے مرے محبوب کے سر تک

گلابوں کے نشیمن سے مِرے محبوب کے سر تک
سفر لمبا تھا خوشبو کا، مگر آ ہی گئی گھر تک
وفا کی سلطنت، اقلیمِ وعدہ، سرزمینِ دل
نظر کی زد میں ہے خوابوں سے تعبیروں کے کشور تک
کہیں بھی سرنگوں ہوتا نہیں اخلاص کا پرچم
جدائی کے جزیرے سے محبت کے سمندر تک

یزید نقشہ جور و جفا بناتا ہے

عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ

یزید نقشۂ جور و جفا بناتا ہے
حسین اس میں خطِ کربلا بناتا ہے
یزید موسمِ عصیاں کا لاعلاج مرض
حسین خاک سے خاکِ شفا بناتا ہے
یزید کاخِ کثافت کی ڈولتی بنیاد
حسین حسن کی حیرت سرا بناتا ہے

اپنی تصویر کو آنکھوں سے لگاتا کیا ہے

اپنی تصویر کو آنکھوں سے لگاتا کیا ہے
اک نظر میری طرف دیکھ تیرا جاتا کیا ہے
میری رسوائی میں تو بھی ہے برابر کا شریک
میرے قصے میرے یاروں کو سناتا کیا ہے
پاس رہ کر بھی نہ پہچان سکا تو مجھ کو
دور سے دیکھ کے اب ہاتھ ہلاتا کیا ہے

شب وصل کیا مختصر ہو گئی

شبِ وصل کیا مختصر ہو گئی
ذرا آنکھ جھپکی سحر ہو گئی
نگاہوں نے سب راز دل کہہ دیا
انہیں آج اپنی خبر ہو گئی
الٰہی برا ہو غم عشق کا
سنا ہے ان کو خبر ہو گئی

شام غم کچھ اس نگاہ ناز کی باتیں کرو

شامِ غم، کچھ اس نگاہِ ناز کی باتیں کرو
بےخودی بڑھتی چلی ہے، راز کی باتیں کرو
یہ سکوتِ ناز، یہ دل کی رگوں کا ٹوٹنا
خامشی میں کچھ شکستِ ساز کی باتیں کرو
نکہتِ زلفِ پریشاں، داستانِ شامِ غم
صبح ہونے تک اِسی انداز کی باتیں کرو

شبنم آلود پلک یاد آئی

شبنم آلود پلک یاد آئی
گلِ عارض کی جھلک یاد آئی
پھر سلگنے لگے یادوں کے کھنڈر
پھر کوئی تاکِ خنک یاد آئی
کبھی زلفوں کی گھٹا نے گھیرا
کبھی آنکھوں کی چمک یاد آئی

جی اٹھے حشر میں پھر جی سے گزرنے والے

جی اٹھے حشر میں پھر جی سے گزرنے والے
یاں بھی پیدا ہوئے پھر آپ پہ مرنے والے
ہے اداسی شبِ ماتم کی سہانی کیسی
چھاؤں میں تاروں کی نکلتے ہیں سنورنے والے
ہم تو سمجھے تھے کے دشمن پہ اٹھایا خنجر
تم نے جانا کہ ہمیں تم پہ ہیں مرنے والے

اپنا غم لے کے کہیں اور نہ جایا جائے

اپنا غم لے کے کہیں اور نہ جایا جائے
گھر میں بکھری ہوئی چیزوں کو سجایا جائے
جن چراغوں کو ہواؤں کا کوئی خوف نہیں
اُن چراغوں کو ہواؤں سے بچایا جائے
باغ میں جانے کے آداب ہوا کرتے ہیں
کسی تتلی کو نہ پھولوں سے اُڑایا جائے

وہ گلاب وہ غنچے وہ سمن نہیں ملتے

وہ گُلاب، وہ غُنچے، وہ سمن نہیں مِلتے
جِنکے پُھول خُوشبو دیں، وہ چمن نہیں مِلتے
اجنبی دیاروں میں، ہموطن نہیں مِلتے
ہموطن مِلیں بھی تو ہم سخن نہیں مِلتے
مطلبی فضاؤں کا طور ہی نرالا ہے
تن سے تن تو مِلتے ہیں، من سے من نہیں مِلتے

خالی ہے ابھی جام میں کچھ سوچ رہا ہوں

خالی ہے ابھی جام، میں کچھ سوچ رہا ہوں
اے گردشِ ایام! میں کچھ سوچ رہا ہوں
ساقی تجھے اک تھوڑی سی تکلیف تو ہو گی
ساغر کو ذرا تھام، میں کچھ سوچ رہا ہوں
پہلے بڑی رغبت تھی ترے نام سے مجھ کو
اب سن کے ترا نام میں کچھ سوچ رہا ہوں

اگر یہ رات نہ اپنے دیے بجھایا کرے

اگر یہ رات نہ اپنے دِیے بجھایا کرے
تو کیسے کوئی حساب غمِ بقایا کرے
وہ ایک عکس گماں ہے تو دل سے دور رہے
وہ خواب ہے تو مِری آنکھ میں نہ آیا کرے
اسے کہو، ہمیں بے چارگی کی خو ہے مگر
ہمارے ظرف کو اتنا نہ آزمایا کرے

میں تلخئ حیات سے گھبرا کے پی گیا

میں تلخئ حیات سے گھبرا کے پی گیا
غم کی سیاہ رات سے گھبرا کے پی گیا
اتنی دقیق شے کوئی کیسے سمجھ سکے
یزداں کے واقعات سے گھبرا کے پی گیا
چھلکے ہوئے تھے جام پریشاں تھی زلفِ یار
کچھ ایسے حادثات سے گھبرا کے پی گیا

گنہ کا بوجھ جو گردن پہ ہم اٹھا کے چلے

گُنہ کا بوجھ جو گردن پہ ہم اُٹھا کے چلے
خدا کے آگے خجالت سے سر جُھکا کے چلے
کسی کا دل نہ کیا ہم نے پائمال کبھی
چلے جو راہ تو چیونٹی کو بھی بچا کے چلے
مقام یوں ہوا اس کارگاہِ دُنیا میں
کہ جیسے دن کو مسافر سرا میں آ کے چلے

ہے ازل کی اس غلط بخشی پہ حیرانی مجھے

ہے ازل کی اس غلط بخشی پہ حیرانی مجھے
عشق لافانی ملا ہے، زندگی فانی مجھے
میں وہ بستی ہوں کہ یادِ رفتگاں کے بھیس میں
دیکھنے آتی ہے اب میری ہی ویرانی مجھے
تھی یہی تمہید میرے ماتمی انجام کی
پھول ہنستے ہیں تو ہوتی ہے پریشانی مجھے

آہٹ سی کوئی آئے تو لگتا ہے کہ تم ہو

آہٹ سی کوئی آئے تو لگتا ہے کہ تم ہو
سایہ کوئی لہرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
جب شاخ کوئی ہاتھ لگاتے ہی چمن میں
شرمائے لچک جائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
صندل سے مہکتی ہوئی پُرکیف ہوا کا
جھونکا کوئی ٹکرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو

ہم کو کس کے غم نے مارا یہ کہانی پھر سہی

ہم کو کس کے غم نے مارا یہ کہانی پِھر سہی
کس نے توڑا دل ہمارا، یہ کہانی پھر سہی
دل کے لُٹنے کا سبب پوچھو نہ سب کے سامنے
نام آئے گا تمہارا، یہ کہانی پھر سہی
نفرتوں کے تِیر کھا کر دوستوں کے شہر میں
ہم نے کِس کِس کو پکارا، یہ کہانی پھر سہی

حسن بے پروا کو خودبین و خود آرا کر دیا

حُسن بے پروا کو خودبِین و خود آرا کر دیا
کیا کِیا میں نے کہ اظہار تمنا کر دیا
بڑھ گئیں کچھ تم سے مل کر اور بھی بے تابیاں
ہم یہ سمجھے تھے کہ اب دل کو شکیبا کر دیا
پڑھ کے تیرا خط مِرے دل کی عجب حالت ہوئی
اضطرابِ شوق نے اِک حشر برپا کر دیا

کبھی شعر و نغمہ بن کے کبھی آنسوؤں میں ڈھل کے

کبھی شعر و نغمہ بن کے، کبھی آنسوؤں میں ڈھل کے
وہ مجھے مِلے تو لیکن، مِلے صورتیں بدل کر
یہ وفا کی سخت راہیں، یہ تمہارے پائے نازک
نہ لو انتقام مجھ سے، مِرے ساتھ ساتھ چل کے
وہی آنکھ بے بہا ہے جو غمِ جہاں میں روئے
وہی جام جامِ ہے جو بغیرِ فرق چھلکے

اک خطا ہم از رہ سادہ دلی کرتے رہے

اک خطا ہم از رہِ سادہ دلی کرتے رہے
ہر تبسم پر قیاسِ دوستی کرتے رہے
ایسے لوگوں سے بھی ہم مِلتے رہے دل کھول کر
جو وفا کے نام پر سوداگری کرتے رہے
خود اندھیروں میں بسر کرتے رہے ہم زندگی
دوسروں کے گھر میں لیکن روشنی کرتے رہے

وہ کہتے ہيں رنجش کی باتيں بھلا ديں

وہ کہتے ہيں رنجِش کی باتيں بھلا ديں
محبت کريں، خوش رہيں، مسکرا ديں
غرور اور ہمارا غرورِ محبت
مہ و مہر کو ان کے در پر جھکا ديں
جوانی ہو گر جاوِدانی تو يا رب
تِری سادہ دنيا کو جنت بنا ديں

مجھ سا جہان میں نادان بھی نہ ہو

مجھ سا جہان میں نادان بھی نہ ہو
کر کے جو عشق کہتا ہے نقصان بھی نہ ہو
کچھ بھی نہیں ہوں مگر اتنا ضرور ہے
بِن میرے شاید آپ کی پہچان بھی نہ ہو
آشفتہ سر جو لوگ ہیں مشکل پسند ہیں
مشکل نہ ہو جو کام تو آسان بھی نہ ہو

تبسم ہے وہ ہونٹوں پر جو دل کا کام کر جائے

تبسم ہے وہ ہونٹوں پر جو دل کا کام کر جائے
انہيں اس کی نہيں پروا، کوئی مرتا ہے، مر جائے
دعا ہے ميری اے دل! تجھ سے دنيا کوچ کر جائے
اور ايسی کچھ بنے تجھ پر کہ ارمانوں سے ڈر جائے
جو موقع مل گيا تو خضرؑ سے يہ بات پوچھيں گے
جسے ہو جستجو اپنی، وہ بے چارہ کدھر جائے؟

یہ جو ننگ تھے یہ جو نام تھے مجھے کھا گئے

یہ جو ننگ تھے، یہ جو نام تھے، مجھے کھا گئے
یہ خیالِ پُختہ جو خام تھے، مجھے کھا گئے
کبھی اپنی آنکھ سے زندگی پہ نظر نہ کی
وہی زاویے کہ جو عام تھے، مجھے کھا گئے
میں عمیق تھا کہ پلا ہوا تھا سکوت میں
یہ جو لوگ محوِ کلام تھے، مجھے کھا گئے

ملنے کی طرح مجھ سے وہ پل بھر نہیں ملتا

ملنے کی طرح مجھ سے وہ پل بھر نہیں ملتا
دل اس سے ملا جس سے مقدر نہیں ملتا
کہنے کو غمِ ہجر بڑا دشمنِ جاں ہے
پر دوست بھی اس دوست سے بہتر نہیں ملتا
یہ راہِ تمنا ہے یہاں دیکھ کے چلنا
اس راہ میں سر ملتے ہیں پتھر نہیں ملتا

عشق میں جان سے گزرتے ہیں گزرنے والے

عشق میں جان سے گزرتے ہیں گزرنے والے
موت کی راہ نہیں دیکھتے مرنے والے
آخری وقت بھی پورا نہ کیا وعدۂ وصل
آپ آتے ہی رہے، مر گئے مرنے والے
اُٹھے اور کوچۂ محبوب میں پہنچے عاشق
یہ مسافر نہیں راستے میں ٹھہرنے والے

ظُلمتوں کے پروردہ روشنی سے ڈرتے ہیں

ظلمتوں کے پروردہ، روشنی سے ڈرتے ہیں
موت کے یہ سوداگر زندگی سے ڈرتے ہیں
علم ہی وہ طاقت ہے، خوف کی جو دشمن ہے
مصلحت کے خوشہ چیں آگہی سے ڈرتے ہیں
دشمنوں کی نیّت تو ہم پہ خوب ظاہر تھی
پُرفریب لوگوں کی دوستی سے ڈرتے ہیں

جب کہا اور بھی دنیا میں حسیں اچھے ہیں

جب کہا، اور بھی دُنیا میں حسِیں اچھے ہیں
کیا ہی جھُنجلا کے وہ بولے کہ ہمِیں اچھے ہیں
نہ اُٹھا خوابِ عدم سے ہمیں ہنگامۂ حشر
کہ پڑے چین سے ہم زیرِ زمیں اچھے ہیں
کس بھروسے پہ کریں تجھ سے وفا کی اُمید
کون سے ڈھنگ تِرے جانِ حزِیں اچھے ہیں

گر ہو سلوک کرنا انسان کر کے بھولے

گر ہو سلوک کرنا، انسان کر کے بُھولے
احسان کا مزا ہے احسان کر کے بھولے
نشتر سے کم نہیں ہے کچھ چھیڑ آرزو کی
عاشق مزاج کیوں کر ارمان کر کے بھولے
وعدہ کیا پھر اس پر تم نے قسم بھی کھائی
کیا بھول ہے انساں، پیمان کر کے بھولے

Tuesday 10 July 2012

جب بہار آئی تو صحرا کی طرف چل نکلا

جب بہار آئی تو صحرا کی طرف چل نکلا
صحنِ گُل چھوڑ گیا، دل مِرا پاگل نکلا
جب اُسے ڈھونڈنے نکلے تو نشاں تک نہ ملا 
دل میں موجود رہا، آنکھ سے اوجھل نکلا
اِک ملاقات تھی جو دل کو سدا یاد رہی
ہم جسے عمر سمجھتے تھے، وہ اِک پل نکلا

اس کے لبوں پہ رات کہانی غضب کی تھی

اس کے لبوں پہ رات کہانی غضب کی تھی
جذبات بہہ رہے تھے، روانی غضب کی تھی
راجا بھی لاجواب تھا صحرائے عشق کا
لیکن دیارِ حسن کی رانی غضب کی تھی
دیکھی ہیں شہر بھر میں بڑی کافر جوانیاں
لیکن جو اُس پہ آئی جوانی غضب کی تھی

رویا کریں گے آپ بھی پہروں اسی طرح

رویا کریں گے آپ بھی پہروں اسی طرح
اَٹکا کہیں جو آپ کا دل بھی مری طرح
آتا نہیں ہے وہ تو کسی ڈھب سے داؤ میں
بنتی نہیں ہے ملنے کی اس کے کوئی طرح
تشبیہ کس سے دوں، کہ طرحدار کی مرے
سب سے نرالی وضع ہے، سب سے نئی طرح

ڈھب دیکھے تو ہم نے جانا دل میں دھن بھی سمائی ہے

ڈھب دیکھے تو ہم نے جانا دل میں دُھن بھی سمائی ہے
میراؔ جی دانا تو نہیں ہے، عاشق ہے، سودائی ہے
صبح سویرے کون سی صورت پھلواری میں آئی ہے
ڈالی ڈالی جھوم اُٹھی ہے، کلی کلی لہرائی ہے
جانی پہچانی صورت کو اب تو آنکھیں ترسیں گی
نئے شہر میں جیون دیوی نیا روپ بھر لائی ہے

لب پر ہے فریاد کہ ساقی یہ کیسا میخانہ ہے

لب پر ہے فریاد کہ ساقی یہ کیسا مے خانہ ہے
رنگِ خونِ دل نہیں چمکا، گردش میں پیمانہ ہے
مِٹ بھی چکیں امیدیں مگر باقی ہے فریب امیدوں کا
اِس کو یہاں سے کون نکالے، یہ تو صاحبِ خانہ ہے
ایسی باتیں اور سے جا کر کہئے تو کچھ بات بھی ہے
اس سے کہے کیا حاصل جس کو سچ بھی تمہارا بہانہ ہے

غم کے بھروسے کیا کچھ چھوڑا کیا اب تم سے بیان کریں

غم کے بھروسے کیا کچھ چھوڑا، کیا اب تم سے بیان کریں
غم بھی راس نہ آیا دل کو، اور ہی کچھ سامان کریں
کرنے اور کہنے کی باتیں، کس نے کہیں اور کس نے کیں
کرتے کہتے دیکھیں کسی کو، ہم بھی کوئی پیمان کریں
بھلی بُری جیسی بھی گزری، اُن کے سہارے گزری ہے
حضرتِ دل جب ہاتھ بڑھائیں، ہر مشکل آسان کریں

جو دل قابو میں ہو تو کوئی رسوائے جہاں کیوں ہو

جو دل قابو میں ہو تو کوئی رُسوائے جہاں کیوں ہو
خلش کیوں ہو، طپش کیوں ہو، قلق کیوں ہو، فغاں کیوں ہو
مزا آتا نہیں تھم تھم کے ہم کو رنج و راحت کا
خوشی ہو غم ہو جو کچھ ہو الٰہی ناگہاں کیوں ہو
یہ مصرع لکھ دیا ظالم نے میری لوحِ تُربت پر
جو ہو فُرقت کی بیتابی تو یوں خوابِ گراں کیوں ہو

امید و وہم کے محور سے ہٹ کے دیکھتے ہیں

اُمید و وہم کے محور سے ہٹ کے دیکھتے ہیں
ذرا سی دیر کو دُنیا سے کٹ کے دیکھتے ہیں
بکھر چکے ہیں بہت باغ و دشت و دریا میں
اب اپنے حجرۂ جاں میں سِمٹ کے دیکھتے ہیں
تمام خانہ بدوشوں میں مشترک ہے یہ بات
سب اپنے اپنے گھروں کو پلٹ کے دیکھتے ہیں

اب اس کو وہ بھولی باتیں یاد دلانا ٹھیک نہیں

اب اُس کو وہ بُھولی باتیں یاد دلانا ٹھیک نہیں
ناحق وہ آزردہ ہو گا، اُسے رُلانا ٹھیک نہیں
فون کے آگے چپ بیٹھا، میں کتنی دیر سے سوچ رہا ہوں
ابھی وہ تھک کر سویا ہو گا، اُسے جگانا ٹھیک نہیں
اِک روشن کھڑکی کہتی ہے دیکھو، آگے دریا ہے
جاگ رہے ہیں سب گھر والے لان میں آنا ٹھیک نہیں

خود دل میں رہ کے آنکھ سے پردہ کرے کوئی

خود دل میں رہ کے آنکھ سے پردہ کرے کوئی
ہاں لطف جب ہے پا کے بھی ڈھونڈا کرے کوئی
تم نے تو حکمِ ترکِ تمنّا سُنا دیا
کس دل سے آہ ترکِ تمنّا کرے کوئی
دُنیا لرز گئی دلِ حرماں نصیب کی
اس طرح سازِ عیش نہ چھیڑا کرے کوئی

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا
تِرے وعدے پر جئے ہم تو یہ جان جُھوٹ جانا
کہ خُوشی سے مر نہ جاتے، اگر اعتبار ہوتا
تِری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا
کبھی تُو نہ توڑ سکتا، اگر اُستوار ہوتا

سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ

سرکتی جائے ہے رُخ سے نقاب آہستہ آہستہ
نکلتا آ رہا ہے آفتاب آہستہ آہستہ
جواں ہونے لگے جب وہ تو ہم سے کر لیا پردہ
حیا یک لخت آئی اور شباب آہستہ آہستہ
شبِ فرقت کا جاگا ہوں فرشتو اب تو سونے دو
کہیں فرصت میں کر لینا حساب آہستہ آہستہ

گھر عطا کر مکاں سے کیا حاصل

 گھر عطا کر، مکاں سے کیا حاصل

صرف وہم و گماں سے کیا حاصل

بے یقینی ہی بے یقینی ہے

ایسے ارض و سماں سے کیا حاصل

آفتِ ناگہاں کو روکے کون؟

دولتِ بیکراں سے کیا حاصل

وسعت چشم کو اندوہ بصارت لکھا

وُسعتِ چشم کو اندوہِ بصارت لکھا
میں نے اِک وصل کو اِک ہجر کی حالت لکھا
میں نے لکھا کہ صفحۂ دل کبھی خالی نہ ہو
اور کبھی خالی ہو بھی تو ملامت لکھا
میں نے پرواز لکھی حدِ فلک سے آگے
اور بے بال و پری کو بھی نہایت لکھا

دونوں کے ساتھ یہ ہوا عمر محال دی گئی

دونوں کے ساتھ یہ ہوا، عمرِ محال دی گئی
عشق کو سادگی ملی، حُسن کو چال دی گئی
پہلے سے اونچا ہو گیا، سَرو کا سَر غرور سے
سَرو کے ساتھ جب تِرے قد کی مثال دی گئی
تیری نگاہ جب پڑی، دل سے گئے ہزار لوگ
تیرا اشارہ جب ہوا، جان نکال دی گئی

Monday 9 July 2012

دل جو دیوانہ نہیں آخر کو دیوانہ بھی تھا

دل جو دیوانہ نہیں آخر کو دیوانہ بھی تھا
بھُولنے پر اس کو جب آیا تو پہچانا بھی تھا
جانیے کس شوق میں رشتے بچھڑ کر رہ گئے
کام تو کوئی نہیں تھا پر ہمیں جانا بھی تھا
اجنبی سا ایک موسم ایک بے موسم سی شام
جب اسے آنا نہیں تھا جب اسے آنا بھی تھا

دل کا دیار خواب میں دور تلک گزر رہا

دل کا دیارِ خواب میں، دور تلک گُزر رہا
پاؤں نہیں تھے درمیاں، آج بڑا سفر رہا
ہو نہ سکا کبھی ہمیں اپنا خیال تک نصیب
نقش کسی خیال کا، لوِح خیال پر رہا
نقش گروں سے چاہیے، نقش و نگار کا حساب
رنگ کی بات مت کرو، رنگ بہت بکھر رہا

جِسم تپتے پتھروں پر روح صحراؤں میں تھی

جِسم تپتے پتھروں پر، رُوح صحراؤں میں تھی
پھر بھی تیری یاد ایسی تھی کہ جو چھاؤں میں تھی
ایک پُرہیبت سکوتِ مستقل آنکھوں میں تھا
ایک طغیانی مسلسل، دل کے دریاؤں میں تھی
ہم ہی ہو گزرے ہیں خود اپنے شہر اجنبی
وہ جہاں بھی تھی وہاں اپنے شناساؤں میں تھی

قدم قدم پہ نئے سے نئے حصار میں تھا

قدم قدم پہ نئے سے نئے حِصار میں تھا
دلِ امیر، محبت کے کاروبار میں تھا
نگاہ، لمحہ بہ لمحہ لرز لرز جاتی
عجیب رُعب تِرے حُسنِ بیقرار میں تھا
تمام عمر بِتا دی تیرے تعاقب میں
پلٹ کے دیکھا تو اِک شہر انتظار میں تھا

اس غریبی میں گزارہ نہیں ہوتا مولا

اِس غریبی میں گزارہ نہیں ہوتا مولا
غیب سے کوئی اشارہ نہیں ہوتا مولا
مجھ کو ہِجرت کی کوئی راہ سُجھا، ہمت دے
مجھ سے یہ شہر گوارہ نہیں ہوتا مولا
جب میں گِھر جاتا ہوں انبوہِ مصائب میں کبھی
تجھ بِنا کوئی سہارا نہیں ہوتا مولا

اذیت

اذِیّت

کتنے چہرے
دن بھر دھوکا دیتے ہیں
کتنی آنکھیں
دن بھر دھوکا کھاتی ہیں
کتنے دل

اے عشق مجھے آزاد کرو

اے عشق! مجھے آزاد کرو

کتنی ہی
زنجیریں
دل میں
نوکِیلے تپتے آہن سے بھی
کہیں زیادہ چُبھتی ہیں

Sunday 8 July 2012

آ کہ جہان بے خبراں میں بے خبرانہ رقص کریں

آ کہ جہانِ بے خبراں میں بے خبرانہ رقص کریں
خیرہ سرانہ شور مچائیں خیرہ سرانہ رقص کریں
فن تو حسابِ تنہائی ہے شرط بھلا کس شے کی ہے
یعنی اُٹھیں اور بے خلخال و طبل و ترانہ رقص کریں
داد سے جب مطلب ہی نہیں تو عُذر بھلا کس بات کا ہے
ہم بھی بزمِ بے بصراں میں بے بصرانہ رقص کریں

حسرت رنگ آئی تھی دل کو لگا کے لے گئی

حسرتِ رنگ آئی تھی دل کو لگا کے لے گئی
یاد تھی، اپنے آپ کو یاد دلا کے لے گئی
خیمہ گہہِ فراق سے، خیمہ گہہِ وصال تک
ایک اُداس سی ادا مُجھ کو منا کے لے گئی
ہجر میں جل رہا تھا میں اور پِگھل رہا تھا میں
ایک خُنَک سی روشنی مجھ کو بُجھا کے لے گئی

سب ہنر اپنی برائی میں دکھائی دیں گے

سب ہُنر اپنی بُرائی میں دِکھائی دیں گے
عیب تو بس مِرے بھائی میں دِکھائی دیں گے
اس کی آنکھوں میں نظر آئیں گے اتنے سورج
جیسے پیوند رضائی میں دِکھائی دیں گے
ہم نے اپنی کئی صدیاں یہیں دفنائی ہیں
ہم زمینوں کی کُھدائی میں دِکھائی دیں گے

رشتوں کی دھوپ چھاؤں سے آزاد ہو گئے

رشتوں کی دُھوپ چھاؤں سے آزاد ہو گئے
اب تو ہمیں بھی سارے سبق یاد ہو گئے
آبادیوں میں ہوتے ہیں برباد کتنے لوگ
ہم دیکھنے گئے تھے تو برباد ہو گئے
میں پربتوں سے لڑتا رہا اور چند لوگ
گیلی زمین کھود کر فرہاد ہو گئے

پھول سا تیرا سراپا اور خو پتھر کی ہے

پُھول سا تیرا سراپا اور خُو پتھر کی ہے
ٹُوٹ کر کیسے تُجھے چاہوں کہ تُو پتھر کی ہے
ٹُوٹ جانے کی گھڑی جیسے کھڑی ہو سامنے
ایک مُورت آئنے کے روبرو پتھر کی ہے
آ گیا ہوں آبگینے بیچنے بازار میں
دیکھتا کیا ہوں تجارت کُو بہ کُو پتھر کی ہے

غم کا بادل تری زلفوں سے گھنیرا نکلا

غم کا بادل تری زُلفوں سے گھنیرا نکلا
سایۂ ابر بھی قسمت کا اندھیرا نکلا
سو گئے چاند ستارے تو اُجالا جاگا
چل دیئے ہجر کے مارے تو سویرا نکلا
اپنا گھر چھوڑ کے جانا کوئی آساں تو نہیں
ہاتھ ملتا مرے آنگن سے اندھیرا نکلا

بچوں کی طرح دل سے لگا رکھے تھے ایسے

بچوں کی طرح دل سے لگا رکھے تھے ایسے
غم جیسے کھلونے ہوں، اُٹھا رکھے تھے ایسے
دیکھے سے جنہیں پھول کھلیں دشتِ وفا میں
دامن پہ کئی داغ سجا رکھے تھے ایسے
احساسِ ندامت سے بچا رکھا تھا سب کو
آنسو مری پلکوں نے چھپا رکھے تھے ایسے

بسا ہوا تھا مرے دل میں درد جیسا تھا

بسا ہوا تھا مِرے دل میں، درد جیسا تھا
وہ اجنبی تھا مگر گھر کے فرد جیسا تھا
کبھی وہ چشمِ تصوّر میں عکس کی صورت
کبھی خیال کے شیشے پہ گرد جیسا تھا
جدا ہوا نہ لبوں سے وہ ایک پل کے لیے
کبھی دعا، تو کبھی آہِ سرد جیسا تھا

زمیں پہ بوجھ تھے کیا زیر آسماں رہتے

زمیں پہ بوجھ تھے، کیا زیرِ آسماں رہتے
یہ کائنات پرائی تھی، ہم کہاں رہتے؟
ہم ایسے بے سروساماں جہانِ امکاں میں
ہزار سال بھی رہتے تو بے نشاں رہتے
جو ہم لہو کی شہادت بھی پیش کر دیتے
جو بدگماں تھے بہ ہر حال بدگماں رہتے

اِک وہی شخص تھا بس چاہنے والا میرا

اِک وہی شخص تھا بس چاہنے والا میرا
اس نے بھی دل میں کبھی روگ نہ پالا میرا
چاند سے کر دیا پتھر مجھے اِک لمحے نے
وقت نے چھین لیا مجھ سے اجالا میرا
جانتا تھا کہ یہ شہرت نہیں، رسوائی ہے
جانے کیوں اُس نے بہت نام اچھالا میرا

وقت ہر اک غبار سے باہر

وقت ہر اِک غبار سے باہر
دفن ہے یہ مزار سے باہر
آنے والے ہجوم نے مجھ کو
کر دیا ہے قطار سے باہر
شیر سویا ہے اور جاگتی ہے
اس کی ہیبت کچھار سے باہر

Saturday 7 July 2012

چاہت میں کیا دنیاداری عشق میں کیسی مجبوری

چاہت میں کیا دُنیاداری، عشق میں کیسی مجبُوری
لوگوں کا کیا سمجھانے دو، ان کی اپنی مجبُوری
میں نے دل کی بات رکھی اور تُو نے دُنیا والوں کی
میری عرض بھی مجبُوری تھی ان کا حکم بھی مجبُوری
روک سکو تو پہلی بارش کی  بُوندوں کو تم روکو
کچی مٹی تو مہکے گی، ہے مٹی کی مجبُوری

محبت ڈائری ہرگز نہیں ہے

محبت ڈائری ہرگز نہیں ہے

محبت ڈائری ہرگز نہیں ہے
محبت ڈائری ہرگز نہیں ہے آبِ جُو ہے
جو دلوں کے درمیاں بہتی ہے خُوشبُو ہے
کبھی پلکوں پہ لہرائے تو آنکھیں ہنسنے لگتی ہیں
جو آنکھوں میں اُتر جائے تو منظر اور پس منظر میں شمعیں جلتی ہیں

ایک ایک جذبے کو بے مہار کرنا تھا

ایک ایک جذبے کو، بے مہار کرنا تھا
وہ تو ایک دریا تھا، مجھ کو پار کرنا تھا
عشق کی کہانی میں، موت المیہ کب تھی
خواہشوں کو ہاتھوں سے زیبِ دار کرنا تھا
وہ بھی کہہ گیا یونہی لوٹ کر پھر آؤں گا
مجھ کو بھی اب ایسے انتظار کرنا تھا

نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم

نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم
بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم
خموشی سے ادا ہو رسمِ دوری
کوئی ہنگامہ برپا کیوں کریں ہم
یہ کافی ہے کہ ہم دشمن نہیں ہیں
وفاداری کا دعویٰ کیوں کریں ہم

جسے نہ میری اداسی کا کچھ خیال آیا

جِسے نہ میری اداسی کا کچھ خیال آیا
میں اس کے جُملہ محاسن پہ خاک ڈال آیا
یہ عشق خُوب رہا باوجود ملنے کے
نہ درمیان کبھی لمحۂ وصال آیا
اشارہ کرنے لگے ہیں بھنور کے ہاتھ ہمیں
خوشا کہ پھر دلِ دریا میں اشتعال آیا

وفور شوق میں جب بھی کلام کرتے ہیں

وفورِ شوق میں جب بھی کلام کرتے ہیں 
تو حرف حرف کو حُسنِ تمام کرتے ہیں 
گَھنے درختوں کے سائے کی عمر لمبی ہو
کہ ان کے نیچے مسافر قیام کرتے ہیں 
اُسے پسند نہیں خواب کا حوالہ بھی
تو ہم بھی آنکھ پہ نیندیں حرام کرتے ہیں 

ہے کس کا انتظار کھلا گھر کا در بھی ہے

ہے کس کا انتظار کھلا گھر کا در بھی ہے
اور جلتا اک چراغ سرِ رہگزر بھی ہے 
ہر لمحہ گھر کو لوٹ کے جانے کا بھی خیال
ہر لمحہ اس خیال سے دل کو حذر بھی ہے
تنہائیاں پکارتی رہتی ہیں، آؤ، آؤ
اے بیکسی بتا! کہیں اس سے مفر بھی ہے

عجب آدمی تھا یہ قیس بھی بڑا کام کر کے چلا گیا

عجب آدمی تھا یہ قیس بھی، بڑا کام کر کے چلا گیا
تھا کمال اس کو جنون میں، سو تمام کر کے چلا گیا
رہیں دشت میں بھی رمیدہ خُو، پِھریں آ کے شہر میں کُوبکُو
کوئی بے سکوں، یہاں بے سکونی کو عام کر کے چلا گیا
کوئی بات ایسی ہوئی تو ہے، کہ وہ موج موج سا آدمی
جو یُوں، تیغِ تیز سی زندگی کو نیام کر کے چلا گیا

گماں یہی ہے کہ دل خود ادھر کو جاتا ہے

گُماں یہی ہے کہ دل خود اُدھر کو جاتا ہے
سو شک کا فائدہ، اُس کی نظر کو جاتا ہے
حدیں وفا کی بھی آخر ہوس سے ملتی ہیں
یہ راستہ بھی اِدھر سے اُدھر کو جاتا ہے
یہ دل کا درد تو عمروں کا روگ ہے پیارے
سو، جائے بھی تو پہر، دو پہر کو جاتا ہے

میں کہ پر شور سمندر تھے مرے پاؤں میں

میں کہ پُر شور سمندر تھے مرے پاؤں میں
اب کہ ڈُوبا ہوں تو سُوکھے ہوئے دریاؤں میں
نامرادی کا یہ عالم ہے کہ اب یاد نہیں
تُو بھی شامل تھا کبھی میری تمناؤں میں
دن کے ڈھلتے ہی اُجڑ جاتی ہیں آنکھیں ایسے
جس طرح شام کو بازار کسی گاؤں میں

اوروں کا تھا بیان تو موج صدا رہے

اوروں کا تھا بیان تو موجِ صدا رہے 
خود عمر بھر اسیرِ لبِ مدعا رہے 
مثلِ حباب بحرِ غمِ حادثات میں 
ہم زیرِ بارِ منتِ آب و َہوا رہے 
میں اُس سے اپنی بات کا مانگوں اگر جواب 
لہروں کا پیچ و خم وہ کھڑا دیکھتا رہے 

سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
تو اس کے شہر میں ‌کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے درد کی گاہک ہے چشمِ ناز اس کی
سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں

تم کو دیکھا تو یہ خیال آیا

تم کو دیکھا تو یہ خیال آیا
زندگی دھوپ، تم گھنا سایا
آج پھر دل نے اک تمنا کی
آج پھر دل کو ہم نے سمجھایا
تم چلے جاؤ گے تو سوچیں گے
ہم نے کیا کھویا، ہم نے کیا پایا

Friday 6 July 2012

تری شوریدہ مزاجی کے سبب، تیرے نہیں

ِری شوریدہ مزاجی کے سبب، تیرے نہیں
اے مِرے شہر! تِرے لوگ بھی اب تیرے نہیں
میں نے ایک اور بھی محفل میں انہیں دیکھا ہے
یہ جو تیرے نظر آتے ہیں، یہ سب تیرے نہیں
یہ بہ ہر لحظہ نئی دھن پہ تِھرکتے ہوئے لوگ
کون جانے کہ یہ کب تیرے ہیں، کب تیرے نہیں

اے گردش حیات کبھی تو دکھا وہ نیند

اے گردشِ حیات! کبھی تو دِکھا وہ نیند
جِس میں شبِ وصال کا نشّہ ہو، وہ نیند
ہرنی سی ایک، آنکھ کی مستی میں قید تھی
اِک عمر جس کی کھوج میں پھرتا رہا، وہ نیند
پھوٹیں گے اب نہ ہونٹ کی ڈالی پہ کیا گلاب؟
آئے گی اب نہ لَوٹ کے آنکھوں میں کیا، وہ نیند

خواب کیا کوئی دیکھے نیند کے انجام کے بعد

خواب کیا کوئی دیکھے، نیند کے انجام کے بعد
کس کو جینے کی ہوس، حشر کے ہنگام کے بعد
عشق نے سیکھ ہی لی وقت کی تقسیم کہ، اب
وہ مجھے یاد تو آتا ہے، مگر کام کے بعد
ایک ہی اِسم کو بارش نے ہرا رکھا ہے
پیڑ پہ نام تو لکھے گئے اس نام کے بعد

نیند تو آئی مگر خواب کے تحفے نہ ملے

نیند تو آئی، مگر خواب کے تحفے نہ ملے

کُھل گئی آنکھ تو پھر نیند کے لمحے نہ ملے

آج تک جوڑ کے رکھا ہمیں جن جذبوں نے

اِن دنوں خیر سگالی کے وہ جذبے نہ ملے

کیونکہ غمخواری میں شامل تھی اداکاری بھی

اِس لیے مجھ کو تسلّی کے دو جملے نہ ملے

کوئی خوشی نہ کوئی غم رہا ہے آنکھوں میں

کوئی خوشی، نہ کوئی غم رہا ہے آنکھوں میں
کچھ اب کے اور ہی عالم رہا ہے آنکھوں میں
سرہانے چھوڑ گیا ہے ادھوری تعبیریں
وہ ایک خواب جو بَرہم رہا ہے آنکھوں میں
تمام عالمِ  اِمکاں، اِک آئینہ خانہ
یہ کس کا دیدۂ پُرنم رہا ہے آنکھوں میں