Wednesday, 11 July 2012

جب کہا اور بھی دنیا میں حسیں اچھے ہیں

جب کہا، اور بھی دُنیا میں حسِیں اچھے ہیں
کیا ہی جھُنجلا کے وہ بولے کہ ہمِیں اچھے ہیں
نہ اُٹھا خوابِ عدم سے ہمیں ہنگامۂ حشر
کہ پڑے چین سے ہم زیرِ زمیں اچھے ہیں
کس بھروسے پہ کریں تجھ سے وفا کی اُمید
کون سے ڈھنگ تِرے جانِ حزِیں اچھے ہیں
خاک میں آہ ملا کر ہمیں، کیا پوچھتے ہو
خیر جس طور میں ہم خاک نشیں اچھے ہیں
ہم کو کوچے سے تمہارے نہ اُٹھائے اللہ
صدقے بس خلد کے کچھ ہم تو یہیں اچھے ہیں
نہ ملا خاک میں، تُو ورنہ پشیماں ہو گا
ظلم سہنے کو ہم اے چرخِ بریں اچھے ہیں
دل میں کیا خاک جگہ دوں تِرے ارمانوں کو
کہ مکاں ہے یہ خراب اور مکیں اچھے ہیں
مجھ کو کہتے ہیں رقیبوں کی بُرائی سُن کر
وہ نہیں تم سے بُرے بلکہ کہیں اچھے ہیں
بُت وہ کافر ہیں کہ اے داغؔ خدا اُن سے بچائے
کون کہتا ہے یہ غارت گرِ دِیں اچھے ہیں

داغ دہلوی

No comments:

Post a Comment