Friday 20 July 2012

پاسبانی پہ اندھیرے کو تو گھر پر رکھا

پاسبانی پہ اندھیرے کو تو گھر پر رکھا
اور چراغوں کو تیری راہگزر پر رکھا
رہ گیا ہاتھ، سدا تیغ و سپر پر رکھا
ہم نے ہر رات کا انجام سحر پر رکھا
ہاتھ اٹھائے رہے ہر لمحہ دعا کی خاطر
اور الفاظ کو تنسیخِ اثر پر رکھا
بے وفائی میری فِطرت کے عناصر میں ہوئی
تیری بے مہری کو اسبابِ دِگر پر رکھا
اتنا آسان نہ تھا ورنہ اکیلے چلنا
تجھ سے ملتے رہے اور دھیان سفر پر رکھا
اس کی خوشبو کا ہی فیضان ہیں اشعار اپنے
نام جس کا ہم نے گلِ تر پر رکھا
پانی دیکھا، نہ زمیں دیکھی، نہ موسم دیکھا
بے ثمر ہونے کا الزام شجر پر رکھا

 پروین شاکر

No comments:

Post a Comment