Thursday 19 July 2012

کلام کرتی نہیں بولتی بھی جاتی ہے

کلام کرتی نہیں بولتی بھی جاتی ہے
تری نظر کو یہ کیسی زبان آتی ہے
کبھی کبھی مجھے پہچانتی نہیں وہ آنکھ
کبھی چراغ سے چاروں طرف جلاتی ہے
عجب تضاد میں پلتی ہے ترے وصل کی آس
کہ ایک آگ بُجھاتی ہے اک لگاتی ہے
وہ دیکھتی ہے مجھے ایسی مست نظروں سے
مرے لہُو میں کوئی آگ سرسراتی ہے
یہ چار سُو کا اندھیرا سمٹنے لگتا ہے
کچھ اس طرح تری آواز جگماتی ہے
یہ کوئی اور نہیں آگ ہے یہ اندر کی
بدن کی رات میں جو روشنی بچھاتی ہے
میں اس کو دیکھتا رہتا ہوں رات ڈھلنے تک
جو چاندنی تری گلیوں سے ہو کر آتی ہے
یہ روشنی بھی عطا ہے تری محبت کی
جو میری روح کے منظر مجھے دکھاتی ہے
امید وصل بھی امجدؔ ہے کانچ کی چُوڑی
کہ پہننے میں کئی بار ٹُوٹ جاتی ہے

امجد اسلام امجد

No comments:

Post a Comment