Tuesday, 31 July 2012

اِک غزل اس پہ لکھوں دل کا تقاضا ہے بہت

اِک غزل اس پہ لکھوں دل کا تقاضا ہے بہت
اِن دنوں خود سے بِچھڑ جانے کا دھڑکا ہے بہت
رات ہو، دن ہو، غفلت ہو، کہ بیداری ہو
اس کو دیکھا تو نہیں ہے اسے سوچا ہے بہت
تشنگی کے بھی مقامات ہیں کیا کیا، یعنی
کبھی دریا نہیں کافی، کبھی قطرہ ہے بہت
میرے ہاتھوں کی لکِیروں کے اضافے ہیں گواہ
میں نے پتھر کی طرح خود کو تراشا ہے بہت
کوئی آیا ہے ضرور اور یہاں ٹھہرا بھی ہے
گھر کی دہلیز پہ اے نورؔ! اجالا ہے بہت

کرشن بہاری نور

No comments:

Post a Comment