کیا ملے واصف کی مستی کا سراغ
چشمِ ساقی نے کِیا روشن چراغ
ہر قدم پر اِک نئی منزل ملی
گل کِھلے ہیں یا ہمارے دل کے داغ
مستئ رِنداں سے جھوم اُٹھی زمیں
آسمان ہے سرنِگوں جیسے ایاغ
دل میں آنکھیں ہیں تو ہے آنکھوں میں دل
باغ میں ہیں پھول اور پھولوں میں باغ
واصف علی واصف
No comments:
Post a Comment