مَیں وہ شاعر ہوں، جو شاہوں کا ثنا خواں نہ ہوا
یہ ہے وہ جرم، جو مُجھ سے کِسی عنواں نہ ہوا
اس گُنہ پر، میری اِک عمر اندھیرے میں کٹی
مجھ سے، اس موت کے میلے میں چراغاں نہ ہوا
کل جہاں پھول کھِلے، جشن ہے زخموں کا وہاں
آنکھیں کچھ اور دکھاتی ہیں، مگر ذہن کچھ اور
باغ مہکے، مگر احساسِ بہاراں نہ ہوا
یوں تو ہر دَور میں گرتے رہے انساں کے نرخ
ان غلاموں میں کوئی یوسفِ کنعاں نہ ہوا
مَیں خود آسودہ ہوں، کم کوش ہوں یا پتھّر ہوں
زخم کھا کر بھی مجھے درد کا عرفاں نہ ہوا
ساری دنیا متلاطم نظر آتی ہے ندیمؔ
مجھ پہ اِک طنز ہوا، وزنِ زنداں نہ ہوا
احمد ندیم قاسمی
No comments:
Post a Comment