آئے کوئی، تو بیٹھ بھی جائے، ذرا سی دیر
مُشتاقِ دِید، لُطف اُٹھائے، ذرا سی دیر
کچھ رہ گیا ہے قِصۂ غم وہ سُنا تو دوں
کاش! ان کو نیند اور نہ آئے، ذرا سی دیر
میں دیکھ لوں اُسے وہ نہ دیکھے مِری طرف
سب خاک ہی میں مجھ کو ملانے کو آئے تھے
ٹھہرے رہے نہ اپنے پرائے، ذرا سی دیر
پِھرتا ہے میرے دل میں کوئی حرفِ مُدعا
قاصِد سے کہہ دو اور نہ جائے، ذرا سی دیر
تم نے تمام عمر جلایا ہے داغؔ کو
کیا لُطف ہو جو وہ بھی جلائے، ذرا سی دیر
داغ دہلوی
No comments:
Post a Comment