حکمراں انصاف سے خود ہی جہاں عاری ہوا
سانس لینا خلق کا، اُس دیس میں بھاری ہوا
مُقتدر بالحِرص ہیں جو جبر سے اُن کے، یہاں
گردنوں کے گِرد طوقِ عجز ہے دھاری ہوا
ختم کر دے دُوریاں بھی دو دھڑوں کے درمیاں
کھاؤ آدھا پیٹ، آدھا ہو نثارِ دیوتا
پاپ جھڑوانے کا نُسخہ، ہائے کیا جاری ہوا
خامشی آمر کی ماجدؔ گُل کِھلائے اور ہی
اور سخن ایسا کہ جو وجہِ دل آزاری ہوا
ماجد صدیقی
No comments:
Post a Comment