Sunday 22 July 2012

تیری نگاہ لطف اگر ہمسفر نہ ہو

تیری نگاہِ لطف اگر ہمسفر نہ ہو
دُشوارئ حیات کبھی مُختصر نہ ہو
اِتنا سِتم نہ کر کہ نہ ہو لذّتِ سِتم
اِتنا کرم نہ کر کہ مِری چشم تر نہ ہو
یہ بھی درست، میرے فسانے ہیں چارسُو
یہ بھی بجا کہ آپ کو میری خبر نہ ہو
میری شبِ فراق نے دی مجھ کو یہ دُعا
دامن میں تیرے آہِ سحر ہو، سحر نہ ہو
اس دہر میں عروج کا ملنا محال ہے
ہستی کے ہر زوال پہ جب تک نظر نہ ہو
اُس پر کرے گا کون زمانے میں اعتماد
اپنی نظر میں ہی جو بشر معتبر نہ ہو
واصفؔ عبث ہے بحث امیر و غریب کی
جب تک عبورِ فلسفۂ خیر و شر نہ ہو

واصف علی واصف​

No comments:

Post a Comment