کیا کرے میری مسیحائی بھی کرنے والا
زخم ہی یہ مجھے لگتا نہیں بھرنے والا
زندگی سے کسی سمجھوتے کے باوصف اب تک
یاد آتا ہے کوئی مارنے، مرنے والا
اس کو بھی ہم تیرے کوچے میں گزار آئے ہیں
اس کا انداز سخن سب سے جدا تھا شاید
بات لگتی ہوئی، لہجہ وہ مکرنے والا
شام ہونے کو ہے اور آنکھ میں اِک خواب نہیں
کوئی اس گھر میں نہیں روشنی کرنے والا
دسترس میں ہیں عناصر کے ارادے کس کے
سو بکھر کے ہی رہا کوئی بکھرنے والا
اسی امید پہ ہر شام بجھائے ہیں چراغ
ایک تارا☆ ہے سرِ بام ابھرنے والا
پروین شاکر
No comments:
Post a Comment