Saturday, 14 July 2012

تشنہ رکھا ہے نہ سرشار کیا ہے اس نے

 تشنہ رکھا ہے، نہ سرشار کیا ہے اس نے 

میں نے پوچھا ہے تو اِقرار کیا ہے اس نے

گِر گئی قیمتِ شمشاد قداں آنکھوں میں

شہر کو مصر کا بازار کیا ہے اس نے

وہ یہاں ایک نئے گھر کی بِنا ڈالے گا

خانۂ درد کو مسمار کیا ہے اس نے

دیکھ لیتا ہے تو کِھلتے چلے جاتے ہیں گلاب

میری مٹی کو خوش آثار کیا ہے اس نے

دوسرا چہرہ اِس آئینے میں دِکھلائی نہ دے

دل کو اپنے لئے تیار کیا ہے اس نے

حرف میں جاگتی جاتی ہے مِرے دل کی مراد

دھیرے دھیرے مجھے بیدار کیا ہے اس نے

میرے اندر کا ہرن شیوۂ رم بھول گیا

کیسے وحشی کو گرفتار کیا ہے اس نے

میں بہرحال اسی حلقۂ زنجیر میں ہوں

ہوں تو آزاد کئی بار کیا ہے اس نے

اب سحر تک تو جلوں گا، کوئی آئے کہ نہ آئے

مجھ کو روشن سرِ دیوار کیا ہے اس نے


عرفان صدیقی

No comments:

Post a Comment