Tuesday, 31 July 2012

وہ لب کہ جیسے ساغر و صہبا دکھائی دے

وہ لب کہ جیسے ساغر و صہبا دِکھائی دے
جنبش جو ہو تو جام چھلکتا دِکھائی دے
دریا میں یوں تو ہوتے ہیں قطرے ہی قطرے سب
قطرہ وہی ہے جس میں کہ دریا دِکھائی دے
کیوں آئینہ کہیں اسے پتھر نہ کیوں کہیں
جس آئینے میں عکس نہ اس کا دِکھائی دے
اس تشنہ لب کی نیند نہ ٹوٹے دعا کرو
جس تشنہ لب کو خواب میں دریا دِکھائی دے
کیسی عجیب شرط ہے دیدار کے لیے
آنکھیں جو بند ہوں تو وہ جلوہ دِکھائی دے
کیا حسن ہے، جمال ہے، کیا رنگ روپ ہے
وہ بِھیڑ میں بھی جائے تو تنہا دِکھائی دے

کرشن بہاری نور

No comments:

Post a Comment