Wednesday, 18 July 2012

کھلی جو آنکھ تو وہ تھا نہ وہ زمانہ تھا

کُھلی جو آنکھ تو وہ تھا نہ وہ زمانہ تھا
دھکتی آگ تھی، تنہائی تھی، فسانہ تھا
غموں نے بانٹ لیا مجھے یوں آپس میں
کہ جیسے میں کوئی لُوٹا ہوا خزانہ تھا
یہ کیا کہ چند ہی قدموں پہ تھک کے بیٹھ گئے
تمہیں تو ساتھ میرا دور تک نِبھانا تھا
مجھے جو میرے لہو میں ڈبو کے گزرا ہے
وہ کوئی غیر نہیں، یار اِک پرانا تھا
خود اپنے ہاتھ سے شہزادؔ اس کو کاٹ دیا
کہ جس درخت کی ٹہنی پہ آشیانہ تھا

فرحت شہزاد

No comments:

Post a Comment