تمام عمر کے ساتھی سے دِل بہلتا کیا
وہ رات بھر کا مسافر تھا دِن ٹھہرتا کیا
اُسے تو اور نئے اِک سفر پہ چلنا تھا
وفا کے نام پہ اُس کا بدن پِگھلتا کیا
جو ہر قدم پہ نئی ٹھوکروں کا عادی ہو
زمین کی گردش اپنے مدار سے باہر
تمہارے درد کا وہ آفتاب ڈھلتا کیا
اُسی کے لفظ تھے میں نے ہی کہہ دیے آخر
وہ میرا یار، میری بات سے مُکرتا کیا
کاشف سلطان
No comments:
Post a Comment