Saturday 28 July 2012

تمام عمر کے ساتھی سے دل بہلتا کیا

تمام عمر کے ساتھی سے دِل بہلتا کیا
وہ رات بھر کا مسافر تھا دِن ٹھہرتا کیا
اُسے تو اور نئے اِک سفر پہ چلنا تھا
وفا کے نام پہ اُس کا بدن پِگھلتا کیا
جو ہر قدم پہ نئی ٹھوکروں کا عادی ہو
جہاں شناس بھلا تیرے ساتھ چلتا کیا
زمین کی گردش اپنے مدار سے باہر
تمہارے درد کا وہ آفتاب ڈھلتا کیا
اُسی کے لفظ تھے میں نے ہی کہہ دیے آخر
وہ میرا یار، میری بات سے مُکرتا کیا

کاشف سلطان

No comments:

Post a Comment