صورتِ خار دے چبھن، صورت گل کِھلا مُجھے
تجھ پہ ہے اَب یہ فیصلہ، چاہیے اِنتہا مجھے
بھید مری سرِشت کا اِس سے کُھلے گا اور بھی
میں کہ گلوں کی خاک ہوں لے تو اڑے ہوا مجھے
کھائے نہ تن پہ تِیر بھی، لائے نہ جُوئے شِیر بھی
وہ کہ مثالِ مہر ہے، وہ کہ ہے رشکِ ماہ بھی
اے مرے نطق و لب کی ضو! سامنے اس کے لا مجھے
دست درازئ خزاں! ہے تجھے مجھ پہ اختیار
کر تو دیا برہنہ تن، اور نہ اَب ستا مجھے
اے مری ماں، مری زمیں، تجھ سے کہوں تو کیا کہوں
چھین کے گود سے تری، لے گئی کیوں خلا مجھے
جب سے جلے ہیں باغ میں برق سے بال و پر مرے
کہنے لگی ہے خلق بھی، ماجدِؔ بے نوا مجھے
ماجد صدیقی
No comments:
Post a Comment