Sunday 29 July 2012

قلم جب درہم و دینار میں تولے گئے تھے

قلم جب دَرہم و دِینار میں تولے گئے تھے
کہاں تک دِل کی چِنگاری، ترے شعلے گئے تھے
فصیلِ شہرِ لب بستہ! گواہی دے کہ لوگ
دہانِ حلقۂ زنجیر سے بولے گئے تھے
تمام آزاد آوازوں کے چہرے گرد ہو جائیں
فِضاؤں میں کچھ ایسے زہر بھی گھولے گئے تھے
فسادِ خوں سے سارا بدن تھا زخم ہی زخم
سو نشتر سے نہیں شمشیر سے کھولے گئے تھے
وہ خاکِ پاک، ہم اہلِ محبت کو ہے اکسیر
سرِ مقتل جہاں نیزوں پہ سر تولے گئے تھے

افتخار عارف

No comments:

Post a Comment