Friday, 27 July 2012

گلشن گلشن گرد برستی کرنی پڑی قبول میاں

گُلشن گُلشن گرد برستی، کرنی پڑی قبُول میاں 
اب کے پت جھڑ ایسی آئی ہم بھی ہوئے ملُول میاں 
کیوں اُس بات کے کھوجی ٹھہرے تم میری رسوائی کو 
میں جو بات چُھپانا چاہوں، بات کو دے کر طُول میاں 
کام کی بات تلاش کرو تو ریت میں سونے جیسی ہے 
کہنے کو لوگوں نے کہا ہے کیا کیا کچھ نہ فضُول میاں 
ہم جوگی، ہم روگی خُود ہی اپنے روگ مِٹا لیں گے 
جان کے درد ہمارے تم کیوں ہونے لگے ملُول میاں 
میں شہروں کا قیس ہوں میرے گُلشن بھی ہیں صحرا سے 
ذہنوں سی زرخیز زمیں میں دیکھوں اُگے ببُول میاں 
ماجدؔ کیسے ہاتھ لگا ہے میر سا یہ اندازِ سخن 
سوچی ہیں یا اِن باتوں کا دل پر ہوا نزُول میاں 

ماجد صدیقی

No comments:

Post a Comment