Tuesday 31 December 2019

تیرے بغیر کچھ بھی نہ بھاۓ تو کیا کروں

دل سے تِرا خیال نہ جائے تو کیا کروں
میں کیا کروں کوئی نہ بتائے تو کیا کروں
امید دل نشیں سہی، دنیا حسیں سہی
تیرے بغیر کچھ بھی نہ بھائے تو کیا کروں
دل کو خدا کی یاد تلے بھی دبا چکا
کمبخت پھر بھی چین نہ پائے تو کیا کروں

اے دوست مٹ گیا ہوں فنا ہو گیا ہوں میں ​

اے دوست مِٹ گیا ہوں فنا ہو گیا ہوں میں ​
اس دردِ دوستی کی دوا ہو گیا ہوں میں ​
قائم کِیا ہے میں نے فنا کے وجود کو ​
دنیا سمجھ رہی ہے فنا ہو گیا ہوں میں ​
نا آشنا ہیں رتبۂ دیوانگی سے دوست ​
کمبخت جانتے نہیں، کیا ہو گیا ہوں میں​

چھوٹا سا منہ تھا مجھ سے بڑی بات ہو گئی

عرضِ ہنر بھی وجہِ شکایات ہو گئی
چھوٹا سا منہ تھا مجھ سے بڑی بات ہو گئی
دُشنام کا جواب نہ سُوجھا بجُز سلام
ظاہر مِرے کلام کی اوقات ہو گئی
دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

Monday 30 December 2019

جینا مشکل ہے کہ آسان ذرا دیکھ تو لو

جینا مشکل ہے کہ آسان ذرا دیکھ تو لو
لوگ لگتے ہیں پریشان، ذرا دیکھ تو لو
پھر مقرر کوئی سرگرم سرِ منبر ہے
کس کے ہے قتل کا سامان ذرا دیکھ تو لو
یہ نیا شہر تو ہے خوب بسایا تم نے
کیوں پرانا ہوا ویران، ذرا دیکھ تو لو

کہ میری زنجیر دھیرے دھیرے پگھل رہی ہے

وہ ڈھل رہا ہے تو یہ بھی رنگت بدل رہی ہے
زمین سورج کی انگلیوں سے پھسل رہی ہے
جو مجھ کو زندہ جلا رہے ہیں وہ بے خبر ہیں
کہ میری زنجیر دھیرے دھیرے پگھل رہی ہے
میں قتل تو ہو گیا تمہاری گلی میں، لیکن
مِرے لہو سے تمہاری دیوار گَل رہی ہے

گلے شکوے بھی رہتے تھے مگر ایسا نہیں تھا

بڑی رونق تھی اس گھر میں، یہ گھر ایسا نہیں تھا
گلے شکوے بھی رہتے تھے مگر ایسا نہیں تھا
جہاں کچھ شیریں باتیں تھیں وہیں کچھ تلخ باتیں تھیں
مگر ان تلخ باتوں کا اثر ایسا نہیں تھا
انہی شاخوں پہ گل تھے برگ تھے کلیاں تھیں غنچے تھے
یہ موسم جب نہ ایسا تھا، شجر ایسا نہیں تھا

جو بات کہتے ڈرتے ہیں سب تو وہ بات لکھ

جو بات کہتے ڈرتے ہیں سب تُو وہ بات لکھ
اتنی اندھیری تھی نہ کبھی پہلے رات لکھ
جن سے قصیدے لکھے تھے وہ پھینک دے قلم
پھر خونِ دل سے سچے قلم کی صفات لکھ
جو روزناموں میں کہیں پاتی نہیں جگہ
جو روز ہر جگہ کی ہے، وہ واردات لکھ

Sunday 29 December 2019

اک آمر تخت پہ بیٹھا تھا

اک آمر تخت پہ بیٹھا تھا

مِرے دریا جب نیلام ہوئے
اور بنجر میرے کھیت ہوئے
اک آمر تخت پہ بیٹھا تھا

مِرے لشکر کو جب مات ہوئی
اور دیس مِرا تقسیم ہوا
اک آمر تخت پہ بیٹھا تھا

کاش ہم نہیں لڑتے

کاش ہم نہیں لڑتے
آس پاس والوں سے
اپنی سب کمائی یوں 
لشکری بنانے پر
خرچ ہم نہیں کرتے
آج اپنے آنگن میں
بھوک بھی نہیں ہوتی

Saturday 28 December 2019

موچی ہی ہوں

موچی ہی ہوں

شبدوں کے اک چوک میں بیٹھا
کیفیت کی دری بچھائے
پھٹے پرانے جذبے گانٹھتا رہتا ہوں
جب آنسو میلے ہو جائیں
نظم کی اجلی پالش سے چمکا دیتا ہوں

نیکیاں اور بھلائیاں مولا

نیکیاں اور بھلائیاں مولا
سب کی سب خود نمائیاں مولا
تُو تو سب جانتا ہے، پھر تجھ کو
چاہییں کیوں صفائیاں مولا
تُو کے پہرے پہ آ کے دیکھا تو
میں کی آنکھیں بھر آئیاں مولا

غیر کے ہاتھ میں ڈوری کو تھمایا جائے

غیر کے ہاتھ میں، ڈوری کو تھمایا جائے
میں ہوں کٹھ پُتلی، مجھے خوب نچایا جائے
مجھ پہ دشمن کو ملے غلبہ، یہ ناممکن ہے
مجھ کو مغلوب بھی، اپنوں سے کرایا جائے
بن کے دیمک مِرے اپنے ہی مجھے چاٹیں ہیں
کیوں کسی غیر پہ، الزام لگایا جائے

ہر اک جابر سے انکاری رہے گی

ہر اک جابر سے انکاری رہے گی
محبت حمد ہے جاری رہے گی 
یونہی نادِ علی پڑھتا رہوں گا
میری للکار دو دھاری رہے گی 
ہم ایسے کہنے والے جب تلک ہیں
غزل بندوق پر بھاری رہے گی 

دوراہے پر بچھڑنا ہے تم کو​ بچھڑ جاؤ لیکن

دوراہے پر

بچھڑنا ہے تم کو​
بچھڑ جاؤ، لیکن​
کسی سنگِ الزام سے تو نوازو​
 اگر زندگی کے کسی موڑ پر ہم ملیں​
تو ہمارے لبوں پر​

Friday 27 December 2019

واں پہنچ کر جو غش آتا پئے ہم ہے ہم کو

واں پہنچ کر جو غش آتا پۓ ہم ہے ہم کو 
صد رہ آہنگِ زمیں بوسِ قدم ہے ہم کو 
دل کو میں اور مجھے دل محوِ وفا رکھتا ہے 
کس قدر ذوقِ گرفتارئ ہم ہے ہم کو 
ضعف سے نقشِ پۓ مور، ہے طوقِ گردن 
تِرے کوچے سے کہاں طاقتِ رم ہے ہم کو 

درد ہو دل میں تو دوا کیجے

درد ہو دل میں تو دوا کیجے
دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجے
ہم کو فریاد کرنی آتی ہے
آپ سنتے نہیں تو کیا کیجے
ان بتوں کو خدا سے کیا مطلب
توبہ توبہ، خدا خدا کیجے

نہ سنو گر برا کہے کوئی

نہ سنو گر برا کہے کوئی 
نہ کہو گر برا کرے کوئی 
روک لو گر غلط چلے کوئی 
بخش دو گر خطا کرے کوئی 
کون ہے جو نہیں ہے حاجت مند 
کس کی حاجت روا کرے کوئی 

Thursday 26 December 2019

میں جب بھی قتل ہو کر دیکھتا ہوں

میں جب بھی قتل ہو کر دیکھتا ہوں 
تو اپنوں ہی کا لشکر دیکھتا ہوں 
میں دنیا اپنے اندر دیکھتا ہوں 
یہیں پہ سارا منظر دیکھتا ہوں 
مجھے اس جرم میں اندھا کیا ہے 
کہ بینائی سے بڑھ کر دیکھتا ہوں 

کم قامتان شہر برابر کے ہو گئے

آوارگانِ شوق سبھی گھر کے ہو گئے
اک ہم ہی ہیں کہ کوچۂ دلبر کے ہو گئے
پھر یوں ہوا کہ تجھ سے بچھڑنا پڑا ہمیں
پھر یوں لگا کہ شہر سمندر کے ہو گئے
کچھ دائرے تغیر دنیا کے ساتھ ساتھ
ایسے کھنچے کہ ایک ہی محور کے ہو گئے

نہ فاصلے کوئی رکھنا نہ قربتیں رکھنا

نہ فاصلے کوئی رکھنا، نہ قربتیں رکھنا
بس اب بقدرِ غزل اس سے نسبتیں رکھنا
یہ کس تعلقِ خاطر کا دے رہا ہے سراغ
کبھی کبھی تِرا مجھ سے شکایتیں رکھنا
فضائے شہر میں اب کے بڑی کدورت ہے
بہت سنبھال کے اپنی محبتیں رکھنا

خوشبو ہیں تو ہر دور کو مہکائیں گے ہم لوگ

خوشبو ہیں تو ہر دور کو مہکائیں گے ہم لوگ
مٹی ہیں تو پل بھر میں بکھر جائیں گے ہم لوگ
مہلت ہے تو جی بھر کے کرو سیر یہاں کی
پھر ایسا خرابہ بھی کہاں پائیں گے ہم لوگ
بیٹھو کہ ابھی ہے یہ گھنی چھاؤں، میسر
ڈھلتا ہوا سایہ ہیں گزر جائیں گے ہم لوگ

Wednesday 25 December 2019

سورج کے ساتھ ڈوب گیا آسمان بھی

دل کیا بجھا دھوئیں میں اٹا ہے جہان بھی
سورج کے ساتھ ڈوب گیا آسمان بھی
سوچوں کو بھی فضا نے اپاہج بنا دیا
بیساکھیاں لگائے ہوئے ہے اڑان بھی
آواز کے چراغ جلا تو دئیے، مگر
لو کی طرح بھڑکنے لگی ہے زبان بھی

رات بہت ہی کالی ہے

رات بہت ہی کالی ہے
اس کا مطلب ہے گویا
صبح بھی ہونے والی ہے
منصف بھی اب خونی
مجرم بھی قانونی
اب انصاف بھی گالی ہے
رات بہت ہی کالی ہے

اٹھو لوگو سنبھلنے کا وقت آ گیا

اٹھو لوگو سنبھلنے کا وقت آ گیا
ظلم کی رات ڈھلنے کا وقت آ گیا
باندھ لو اب سروں سے کفن باندھ لو
پل صراطوں پہ چلنے کا وقت آ گیا
بات چہرے بدلنے سے بنتی نہیں
پورا ڈھانچہ بدلنے کا وقت آ گیا

میری جدائیوں سے وہ مل کر نہیں گیا

میری جدائیوں سے وہ مل کر نہیں گیا
اس کے بغیر میں بھی کوئی مر نہیں گیا
دنیا میں گھوم پھر کے بھی ایسے لگا مجھے
جیسے میں اپنی ذات سے باہر نہیں گیا
کیا خوب ہیں ہماری ترقی پسندیاں
زینے بنا لیے کوئی اوپر نہیں گیا

پرانے رشتوں کی خوش گمانی سے مل رہے ہیں

پرانے رشتوں کی خوش گمانی سے مل رہے ہیں
ہم ایک دشمن کی مہربانی سے مل رہے ہیں
ہماری اک دوسرے میں دلچسپی بڑھ رہی ہے
ہم ایک دوجے سے جس روانی سے مل رہے ہیں
سلگ رہے ہیں پرانی تصویر کے کنارے
ہمارے جسموں کے رنگ پانی سے مل رہے ہیں

جنگل میں آگ کی طرح پھیلا نہیں دیا گیا

جنگل میں آگ کی طرح پھیلا نہیں دیا گیا
تم کو تمہارے عشق کا طعنہ نہیں دیا گیا
جتنا بھرا ہوا تھا وہ اتنا ہی پرسکون تھا
دریا کو آبشار کا لہجہ نہیں دیا گیا
جاتے ہوئے فقیر نے کتنی دعائیں دیں ہمیں
ہم سے تو ایک وقت کا کھانا نہیں دیا گیا

کوئی دو چار دن ہم مسکرانا چھوڑ دیں گے

کوئی دو چار دن ہم مسکرانا چھوڑ دیں گے
اسے دل سے لگا کے فاتحانہ چھوڑ دیں گے
کسی کے دیکھ لینے جاں بہ لب ہونے سے پہلے
پلٹ جائیں گے اور یہ شاخسانہ چھوڑ دیں گے
محبت عمر بھر تم سے کریں گے، اور تم کو
بزرگوں کے کہے پر عاجزانہ چھوڑ دیں گے

تکیہ لگا کے بیٹھ کر بان کی چارپائی پر

تکیہ لگا کے بیٹھ کر بان کی چارپائی پر
تبصرہ کر رہے ہیں لوگ اللہ تِری خدائی پر
نوکری ڈھونڈنے ادھار لے کے چلا تو جاؤں میں
باتیں کریں گے سارے لوگ بوجھ پڑے گا بھائی پر
گاؤں کے لوگ آج بھی اس کو امیری کہتے ہیں
کھانا الگ چٹائی پر، پڑھنا الگ چٹائی پر

جو تجھ کو پسند آئے وہ جوہر نہیں رکھتے

جو تجھ کو پسند آئے وہ جوہر نہیں رکھتے
ہم لوگ مگر راہ میں پتھر نہیں رکھتے
اک امن میسر ہو تو دنیا ہے غنیمت
اور امن کی بنیاد یہ لشکر نہیں رکھتے
جب کچھ نہ رہا پاس تو احساس ہوا ہے
دستار کمینوں کے سروں پر نہیں رکھتے

Tuesday 24 December 2019

زندگی کا پیمبر نہ تھا مقبرہ

زندگی کا پیمبر نہ تھا مقبرہ
موت کے ساتھ چلتا رہا مقبرہ
گھر گِرے تو سبھی لوگ چپ چاپ تھے
کتنے طوفاں اٹھے جب گِرا مقبرہ
میری گستاخیاں حد سے بڑھتی گئیں
تیرے افکار کو لکھ دیا مقبرہ

Monday 23 December 2019

رات کی زلفیں برہم برہم

رات کی زلفیں برہم برہم
درد کی لَو ہے مدہم مدہم
میرے قصے گلیوں گلیوں
تیرا چرچا عالم عالم
پتھر پتھر عشق کی راتیں
حسن کی باتیں ریشم ریشم

مجھے اب ڈر نہیں لگتا

مجھے اب ڈر نہیں لگتا
کسی کے دور جانے سے
تعلق ٹوٹ جانے سے
کسی کے مان جانے سے
کسی کے روٹھ جانے سے
مجھے اب ڈر نہیں لگتا

عجیب دکھ ہے

عجیب دکھ ہے

تجھے خبر ہے 
جو کوئی لہجہ بدل رہا ہو 
کسی کے دل سے نکل رہا ہو
تو ایسا لگتا ہے کوئی سنگدل 
کسی بھی دکھتی ہوئی سی رگ کو 

یاد کا موسم

یاد کا موسم

سوچ کے بے کنار صحرا میں
دُھول اڑاتا ہے
یاد کا موسم 
اپنی بے صرفہ آنکھ ایسے میں
زندگی کے ورق الٹتی ہے

خطاب آنسو، خطیب دکھ ہے عجیب دکھ ہے

خطاب آنسو، خطیب دکھ ہے عجیب دکھ ہے
ہو کربلا یا صلیب دکھ ہے، عجیب دکھ ہے
ترے توسط سے جو ملا ہے، خوشی ہوئی ہے
پر اس خوشی میں، رقیب دکھ ہے، عجیب دکھ ہے
یہ پڑھنے والے بھی فرق تھوڑا سا جان جائیں
ادب خوشی ہے، ادیب دکھ ہے، عجیب دکھ ہے

Friday 20 December 2019

معمولات روز رات کو اٹھ کر ایک گھر بناتا ہوں

معمولات

روز رات کو اٹھ کر
خواہشوں کے گارے سے
ایک گھر بناتا ہوں
اور ٹوٹ جاتا ہوں
ایک کام کرنا ہے
ایک نظم لکھنی ہے

جیون سے سمجھوتہ بھی تو ہو سکتا ہے​

سمجھوتہ​

آؤ ہم اس عشق کا کوئی نام رکھیں
کچھ سپنے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو
صرف کھلی آنکھوں سے دیکھا جاتا ہے
اور کچھ بندھن ایسے بھی تو ہوتے ہیں
جن کو بس محسوس کیا جا سکتا ہے
پیڑ کے پتے گر جائیں تو

اس کو اپنے پاس بلایا جا سکتا ہے

اس کو اپنے پاس بلایا جا سکتا ہے
پنجرے میں بھی شور مچایا جا سکتا ہے
ماں نے کاٹھ کی روٹی بھیجی ہے یہ کہہ کر
بھوک لگے تو اس کو کھایا جا سکتا ہے
دل پر اگنے والے یاد کے شہتوتوں پر
وصل کا ریشم خود بھی بنایا جا سکتا ہے

جسے ہوئی ہے محبت میں اب کے مات بہت

جسے ہوئی ہے محبت میں اب کے مات بہت​
ہیں اس قبیلے سے میرے تعلقات بہت​
مِری ہتھیلی پہ تم خود کو ڈھونڈنا چھوڑو​
مِرے نصیب میں آئیں گے حادثات بہت​
وہ ہم ہی تھے کہ جنہیں ڈوبنا پڑا، ورنہ​
سمندروں کے کنارے رکھے تھے ہات بہت​

یہ دن ہمارا جو شام ہونے کے واسطے ہے

یہ دن ہمارا جو شام ہونے کے واسطے ہے
نئی اداسی کے نام ہونے کے واسطے ہے
ہمارے کردار جانتے ہیں کسی بھی پل میں
ہمارا قصہ تمام ہونے کے واسطے ہے
کوئی سماعت رکھی ہوئی ہے مِرے بدن میں
کوئی خموشی کلام ہونے کے واسطے ہے

Thursday 19 December 2019

ایسی ہمت نہ اب عطا کیجے

ایسی ہمت نہ اب عطا کیجے
جو کہے، جائیے خطا کیجے
گر نباہیں گے تو، مِلا کیجے
راہ ورنہ یہیں جدا کیجے
اک تو دل میں انہیں جگہ دیجے
پھر کرایہ بھی خود ادا کیجے

ساتھ ایسے کو ساتھ کیا کہنا

ساتھ ایسے کو ساتھ کیا کہنا
ساتھ رہنا، مگر جدا رہنا
گھُٹ رہا ہے اسی لباس میں دَم
جو بہت شوق سے تھا کل پہنا
سب کو لگتا ہے اس کہانی میں
اس کا کردار ہے سِتم سہنا

درد پرانا آنسو مانگے آنسو کہاں سے لاؤں

درد پرانا آنسو مانگے، آنسو کہاں سے لاؤں
روح میں ایسی کونپل پھوٹی میں کمہلاتا جاؤں
میرے اندر بیٹھا کوئی میری ہنسی اڑائے
ایک پلک کو اندر جاؤں، باہر بھاگا آؤں
سارے موتی جھوٹے نکلے، سارے جادو ٹونے
میری خالی آنکھو بولو، اب کیا خواب سجاؤں

حملہ آور کوئی عقب سے ہے

حملہ آور کوئی عقب سے ہے
یہ تعاقب میں کون کب سے ہے
شہر میں خواب کا رواج نہیں
نیند کی ساز باز سب سے ہے
لوگ لمحوں میں زندہ رہتے ہیں
وقت اکیلا اسی سبب سے ہے

Sunday 15 December 2019

روح گر نوحہ کناں ہو تو غزل ہوتی ہے

روح گر نوحہ کناں ہو تو غزل ہوتی ہے 
دل کو احساسِ زیاں ہو تو غزل ہوتی ہے 
محفلِ ماہ وشاں میں تو غزل ہو نہ سکی 
بزمِ آشفتہ سراں ہو تو غزل ہوتی ہے
صرف آنکھوں میں نمی سے نہ بنے گی کوئی بات 
ایک دریا سا رواں ہو تو غزل ہوتی ہے 

کفن باندھے ہوئے یہ شہر سارا جا رہا ہے کیوں

کفن باندھے ہوئے یہ شہر سارا جا رہا ہے کیوں
سُوئے مقتل ہی ہر رستہ ہمارا جا رہا ہے کیوں
مسلسل قتل ہونے میں بھی اک وقفہ ضروری ہے
سرِ مقتل ہمِیں کو، پِھر پکارا جا رہا ہے کیوں
یہ منشورِ ستم، لیکن اسے ہم مانتے کب ہیں
صحیفے کی طرح ہم پر اتارا جا رہا ہے کیوں

Saturday 14 December 2019

کیسا ماتم کیسا رونا مٹی کا

کیسا ماتم، کیسا رونا مٹی کا
ٹوٹ گیا ہے ایک کھلونا مٹی کا 
مر کر بھی کب اس سے رشتہ ٹوٹے گا
میرا ہونا بھی ہے ہونا مٹی کا 
اک دن مٹی اوڑھ کے مجھ کو سونا ہے
کیا غم جو ہے آج بچھونا مٹی کا

خواب آنکھوں میں سجانا چھوڑ دے

خواب آنکھوں میں سجانا چھوڑ دے
ریت پہ دیوار اٹھانا چھوڑ دے
چھوڑ دے اس بے وفا کی آرزو
پتھروں سے دل لگانا چھوڑ دے
ذہن کہتا ہے زمانے کو بدل
دل یہ کہتا ہے زمانہ چھوڑ دے

آندھیوں میں اک دیا جلتا ہوا رہ جائے گا

آندھیوں میں اک دِیا🪔 جلتا ہوا رہ جائے گا
میں گزر جاؤں گا میرا نقش پا رہ جائے گا
خواہشوں کے سب پرندے شور سے اڑ جائیں گے
تُو کھڑا خاموش یونہی دیکھتا رہ جائے گا
وار کر سکتا تو ہوں میں اپنے دشمن پر، مگر
سوچتا ہوں پھر درمیاں فرق کیا رہ جائے گا

میں کسی قبر کے نشاں جیسا

تُو زمیں پر ہے کہکشاں جیسا
میں کسی قبر کے نشاں جیسا
میں نے ہر حال میں کیا ہے شکر
اس نے رکھا مجھے جہاں جیسا
ہو گئی وہ بہن بھی اب رخصت
پیار جس نے دیا تھا ماں جیسا

Friday 13 December 2019

جھوٹ سے سچ سے بھی یاری رکھیں

جھوٹ سے سچ سے بھی یاری رکھیں
آپ تو بس اپنی تقریر جاری رکھیں
ان دنوں آپ سا کوئی نہیں بازار میں
جو بھی چاہیں وہ قیمت ہماری رکھیں
اِن دنوں آپ مالک ہیں بازار کے
جو بھی چاہیں وہ قیمت ہماری رکھیں

کالی راتوں کو بھی رنگین کہا ہے میں نے

کالی راتوں کو بھی رنگین کہا ہے میں نے
تیری ہر بات پہ آمین کہا ہے میں نے
تیری دستار پہ تنقید کی ہمت تو نہیں
اپنی پاپوش کو قالین کہا ہے میں نے
ذائقے بارہا آنکھوں میں مزا دیتے ہیں
بعض چہروں کو بھی نمکین کہا ہے میں نے

Thursday 12 December 2019

رابطے بھی رکھتا ہوں راستے بھی رکھتا ہوں

رابطے بھی رکھتا ہوں راستے بھی رکھتا ہوں
لوگوں سے بھی ملتا ہوں فاصلے بھی رکھتا ہوں
غم نہیں ہوں کرتا اب، چھوڑ جانے والوں کا
توڑ کر تعلق میں، در کھلے بھی رکھتا ہوں
موسموں کی گردش سے میں ہوں اب نکل آیا
یاد پر خزاؤں کے حادثے بھی رکھتا ہوں

سر یہ ہر حال جھکا، ہم نے قناعت کی تھی

سر یہ ہر حال جھکا، ہم نے قناعت کی تھی
اک تِری بار ہی بس رب سے شکایت کی تھی
اس قدر سخت سزا بھی تو نہیں بنتی تھی
ہم نے بچپن سے نکلنے کی شرارت کی تھی
ہوش والوں کی نہ باتوں میں ہمی آئے کبھی
ورنہ ہر اک نے سنبھلنے کی ہدایت کی تھی

بس اندھیرا دکھائی دیتا ہوں

بس اندھیرا دکھائی دیتا ہوں
کس کو اب میں سجھائی دیتا ہوں
میری چپ پر نہ کان دھرنا تم
جب نہ بولوں دہائی دیتا ہوں
تجھ سے اب کوئی واسطہ بھی نہیں
پھر بھی تجھ کو صفائی دیتا ہوں

دل کو یوں سیل غم ہجر بہا لے جائے

دل کو یوں سیلِ غمِ ہجر بہا لے جائے
جیسے آندھی کسی پتے کو اڑا لے جائے
گھر سے نکلے ہو تو دیکھو نہ پلٹ کر کہ تمہیں
جانے کس سمت یہ آوارہ ہوا لے جائے
دل سے لٹ کر بھی سخاوت کی تمنا نہ گئی
کوئی اجڑا ہوا آئے تو دعا لے جائے

زخم پھر یاد پرانے آئے

جب بھی ہنسنے کے زمانے آئے
زخم پھر یاد پرانے آئے
بارہا ان کو منایا، تو ہمیں
روٹھ جانے کے بہانے آئے
پھر مجھے ٹوٹ کے چاہا اس نے
پھر بچھڑنے کے زمانے آئے

دل کی نادانیاں نہیں جاتیں

چاک دامانیاں نہیں جاتیں
دل کی نادانیاں نہیں جاتیں
بام و در جل اٹھے چراغوں سے
گھر کی ویرانیاں نہیں جاتیں
اوڑھ لی ہے زمین خود پہ مگر
تن کی عُریانیاں نہیں جاتیں

یہی ہو گا کہ تم مجھ سے بچھڑ جاؤ گی

تو کیا ہو گا
یہی ہو گا کہ تم مجھ سے بچھڑ جاؤ گی
جیسے رنگ سے خوشبو
بدن سے دوڑ سانسوں کی
گرفتِ شام سے، ناراض سورج کی کرن
ایک دم بچھڑ جائے

Tuesday 10 December 2019

میں نے ہنس ہنس کر ہار مانی ہے

دل کو اک بات کہہ سنانی ہے
ساری دنیا فقط کہانی ہے
تُو مِری جان داستان تھا کبھی
اب تیرا نام داستانی ہے
سہہ چکے زخمِ التفات تیرا
اب تیری یاد آزمانی ہے

جانے یہاں ہوں میں یا میں

جانے یہاں ہوں میں یا میں
اپنا گماں ہوں میں یا میں
میری دوئی ہے میرا زیاں
اپنا زیاں ہوں میں یا میں
جانے کون تھا وہ یا وہ
جانے کہاں ہوں میں یا میں

Monday 9 December 2019

کبھی دھنک سی اترتی تھی ان نگاہوں میں

کبھی دھنک سی اترتی تھی ان نگاہوں میں
وہ شوخ رنگ بھی دھیمے پڑے ہواؤں میں
میں تیز گام چلی جا رہی تھی اس کی سمت
کشش عجیب تھی اس دشت کی صداؤں میں
وہ اک صدا جو فریبِ صدا سے بھی کم ہے
نہ ڈوب جائے کہیں تند رو ہواؤں میں

زبانوں کا بوسہ

زبانوں کا بوسہ

زبانوں کے رس میں یہ کیسی مہک ہے
یہ بوسہ کہ جس سے محبت کی صہبا کی اٹھتی ہے خوشبو
یہ بدمست خوشبو جو گہرا، غنودہ نشہ لا رہی ہے
یہ کیسا نشہ ہے؟
مِرے ذہن کے ریزے ریزے میں ایک آنکھ سی کھل گئی ہے

تعزیتی قراردادیں

تعزیتی قراردادیں

یارو! بس اتنا کرم کرنا، پسِ مرگ نہ مجھ پہ ستم کرنا
مجھے کوئی سند نہ عطا کرنا دینداری کی
مت کہنا جوشِ خطابت میں، دراصل یہ عورت مومن تھی
مت اٹھنا ثابت کرنے کو ملک و ملت سے وفاداری
مت کوشش کرنا اپنا لیں حکام کم ازکم نعش مِری

تم پاؤں کے چھالے مت دیکھو

تم پاؤں کے چھالے مت دیکھو
اب اس کی پُرسش کیا کرنا
کن ویرانوں سے آئے ہیں
کس دشت میں ہم سرگرداں تھے
کیا زخم جگر پر کھائے ہیں 
دو بولوں کی دلجوئی سے

Sunday 8 December 2019

ایسے ماحول میں تو پردہ نشیں ملتے ہیں

ایسے ماحول میں تو پردہ نشیں ملتے ہیں
یہ جگہ ٹھیک نہیں، اور کہیں ملتے ہیں
مولا! خوش بخت فقیروں کو سلامت رکھنا
ان کی چوکھٹ پہ کئی تخت نشیں ملتے ہیں
مصر، بغداد، بلخ، شہرِِ بتاں، تیری گلی
ان مقامات پہ کچھ نقشِ جبیں ملتے ہیں

ایسی جدت کی نہ توفیق خدا دے مجھ کو

ایسی جدت کی نہ توفیق خدا دے مجھ کو
جس کا احساس تغزل ہی بھلا دے مجھ کو
تُو کسی روز مِرے جسم کی حِدت لے جا
اس سے پہلے کہ کوئی آگ لگا دے مجھ کو
روشنی نور اٹھا لائے تِرے چہرے کا
حال احوال تِرا موجِ صبا دے مجھ کو

اچھے موسم کی نشانی نہیں ہونے دیتا

اچھے موسم کی نشانی نہیں ہونے دیتا
ہجر انسان کو دھانی نہیں ہونے دیتا
کون مدت سے کھڑا گھور رہا ہے مجھ کو
آئینہ یاد دہانی نہیں ہونے دیتا
اک پری زاد کا آسیب زدہ عشق ہے جو
منجمد جھیل کو پانی نہیں ہونے دیتا

خواب میں اک حسیں دکھائی دیا

خواب میں اک حسیں دکھائی دیا
وہ بھی پردہ نشیں دکھائی دیا
وہ کہیں تھا کہیں دکھائی دیا
میں جہاں تھا وہیں دکھائی دیا
جب تلک تُو نہیں دکھائی دیا
گھر کہیں کا کہیں دکھائی دیا

ولولے جب ہوا کے بیٹھ گئے

ولولے جب ہوا کے بیٹھ گئے
ہم بھی شمعیں بجھا کے بیٹھ گئے
وقت آیا جو تیر کھانے کا
مشورے دور جا کے بیٹھ گئے
عید کے روز ہم پھٹی چادر
پچھلی صف میں بچھا کے بیٹھ گئے

یوں انتقام کے بدلے بھی احترام لیے

خموش رہ کے حریفوں سے انتقام لیے
یوں انتقام کے بدلے بھی احترام لیے
ہم ایسے لوگ تو اپنے بھی کام آ نہ سکے
ہمارے نام سے لوگوں نے کتنے کام لیے
اس ایک مہنگی حسینہ نے سستے شاعروں سے
فقط کلام کیا،۔ اور کئی کلام لیے

Friday 6 December 2019

برسوں کے بعد ديکھا اک شخص دلربا سا

برسوں کے بعد ديکھا اک شخص دلربا سا
اب ذہن ميں نہيں ہے، پر نام تھا بھلا سا
ابرو کھچے کھچے سے آنکھيں جھکی جھکی سی
باتيں رکی رکی سی، لہجہ تھکا تھکا سا
الفاظ تھے کہ جگنو آواز کے سفر ميں
بن جائے جنگلوں ميں جس طرح راستہ سا

نہ شوق وصل نہ رنج فراق رکھتے ہیں

نہ شوقِ وصل نہ رنجِ فراق رکھتے ہیں
مگر، یہ لوگ تِرا اشتیاق رکھتے ہیں
یہ ہم جو تجھ پہ ہیں نازاں تو اس سبب سے کہ ہم
زمانے والوں سے بہتر مذاق رکھتے ہیں
ہم اہلِ دل سے کوئی کیوں ملے کہ ہم سے فقیر
نہ عطر و عود، نہ ساز و یراق رکھتے ہیں

کچھ ہمیں اس سے جان کر نہ کھلے

کچھ ہمیں اس سے جان کر نہ کُھلے
ہم پہ سب بھید تھے وگرنہ کھلے
جی میں کیا کیا تھی حسرتِ پرواز
جب رہائی ملی تو پر نہ کھلے
آگے خواہش تھی خون رونے کی
اب یہ مشکل کہ چشمِ تر نہ کھلے

جنہیں زعم کمانداری بہت ہے

جنہیں زعمِ کماں داری بہت ہے
انہیں پر خوف بھی طاری بہت ہے
کچھ آنکھیں بھی ہیں بینائی سے عاری
کچھ آئینہ بھی زنگاری بہت ہے
نہ جانے کب لٹے گا شہرِ مقتل
سنا ہے اب کے تیاری بہت ہے

Wednesday 4 December 2019

یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے

گیت

یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے

یہ محلوں، یہ تختوں، یہ تاجوں کی دنیا
یہ انساں کے دشمن سماجوں کی دنیا
یہ دولت کے بھوکے رواجوں کی دنیا
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے

دل ابھی

دل ابھی

زندگی سے انس ہے
حسن سے لگاؤ ہے
دھڑکنوں میں آج بھی
دل ابھی بجھا نہیں

رنگ بھر رہا ہوں میں
خاکۂ حیات میں

فن جو نادار تک نہیں پہنچا

فن جو نادار تک نہیں پہنچا 
ابھی معیار تک نہیں پہنچا  
حکم سرکار کی پہنچ مت پوچھ 
اہل سرکار تک نہیں پہنچا 
عدل گاہیں تو دور کی شے ہیں 
قتل اخبار تک نہیں پہنچا 

اپنی غیرت بیچ ڈالیں اپنا مسلک چھوڑ دیں

فروغ کے نام

اپنی غیرت بیچ ڈالیں اپنا مسلک چھوڑ دیں 
رہنماؤں میں بھی کچھ لوگوں کا یہ منشا تو ہے 
ہے جنہیں سب سے زیادہ دعویِٰ حب الوطن 
آج ان کی وجہ سے حبِ وطن رُسوا تو ہے
جھوٹ کیوں بولیں فروغ مصلحت کے نام پر 
زندگی پیاری سہی، لیکن ہمیں مرنا تو ہے

ساحر لدھیانوی

مہکی فضائیں گاتی ہوائیں

فلمی گیت

مہکی فضائیں گاتی ہوائیں
مہکے نظارے سارے کے سارے
تیرے لیے ہیں
تیرے لیے

آ جا کہ تجھ کو بانہوں میں لے لوں 
شانے یہ تیرے زلفیں بکھیروں

مجھ کو آواز دے تو کہاں ہے

فلمی گیت

مجھ کو آواز دے تُو کہاں ہے
تیرے بِن سُونا سُونا جہاں ہے

پہلے دیوانہ مجھ کو بنایا
پھر محبت سے دامن چھڑایا
آہ دل میں ہے، لب پہ فغاں ہے
تیرے بِن سُونا سُونا جہاں ہے

بڑی مشکل سے ہوا تیرا میرا ساتھ پِیا

فلمی گیت

بڑی مشکل سے ہُوا تیرا میرا ساتھ پِیا
ورنہ تیرے بنا بے رنگ تھے دن رات پیا

آئی ملنے کی گھڑی ترسے ہوئے نین میرے
تیری کیا بات ہے، تُو جب بھی ملے چین ملے
رہے سنگ سنگ تیرے خوشیوں کی بارات پیا
بڑی مشکل سے ہوا تیرا میرا ساتھ پیا

چلی رے چلی رے چلی رے

فلمی گیت

چلی رے چلی رے چلی رے
بڑی آس لگا کے چلی رے
میں تو دیس پیا کے چلی رے

پیار سے ناتا جوڑا میں نے
اپنوں سے مُکھ موڑ کے
انجانی راہوں پہ نکلی

Sunday 1 December 2019

تعلقات تو مفروضے زندگی کے ہیں

تعلقات تو مفروضے زندگی کے ہیں 
یہاں نہ کوئی ہے اپنا نہ ہم کسی کے ہیں 
نہ عشق ہی کے اثر ہیں نہ دشمنی کے ہیں 
کہ سارے زخم مِرے دل پہ دوستی کے ہیں 
چراغ، اگرچہ نمائندے روشنی کے ہیں 
مگر یہ ہے کہ یہ آثار تیرگی کے ہیں 

آدم نو کا ترانۂ سفر

آدمِ نو کا ترانۂ سفر

فریب کھاۓ ہیں رنگ و بُو کے سراب کو پوجتا رہا ہوں
مگر نتائج کی روشنی میں، خود اپنی منزل پہ آ رہا ہوں
جو دل کی گہرائیوں میں صبح ظہور آدمؑ سے سو رہی تھیں
میں اپنی فطرت کی ان خدا داد قوتوں کو جگا رہا ہوں
میں سانس لیتا ہوں ہر قدم پر کہ بوجھ بھاری ہے زندگی کا
ٹھہر ذرا گرم رو زمانے! کہ میں تیرے ساتھ آ رہا ہوں

صبح خود بتائے گی تیرگی کہاں جائے

صبح خود بتائے گی تیرگی کہاں جائے 
یہ چراغ کی جھوٹی روشنی کہاں جائے 
جو نشیب آئے گا، راستہ دکھائے گا 
موڑ خود بتائے گا، آدمی کہاں جائے 
بڑھ کے دو قدم تُو ہی اس کی پیٹھ ہلکی کر 
یہ تھکا مسافر اے رہزنی! کہاں جائے

Friday 29 November 2019

فقط جدائی کا ایک دھڑکا دھڑک رہا ہے

مذاق ہو گا 
مگر اسے علم بھی نہیں ہے کہ 
چار گھنٹوں سے
میرے سینے میں اب جو ہے ناں
وہ دل نہیں ہے
فقط جدائی کا ایک دھڑکا دھڑک رہا ہے

مجھے اپنا نہیں اس شخص کا دکھ ہے

مجھے اپنا نہیں
اس شخص کا دکھ ہے
بچھڑ کے مجھ سے 
جس کی نظمیں اور غزلیں
ادھوری رہ گئی ہوں گی

کومل جوئیہ

Thursday 28 November 2019

بھنگڑے پہ اور دھمال پہ بھی ٹیکس لگ گیا

بھنگڑے پہ اور دھمال پہ بھی ٹیکس لگ گیا
واعظ کے قیل و قال پہ بھی ٹیکس لگ گیا
شادی کے بارے میں کبھی نہ سوچنا چھڑو
سنتے ہیں اس خیال پہ بھی ٹیکس لگ گیا
ہے جس حسین کے گال پہ ڈمپل کوئی کہ تِل
ہر اس حسین کے گال پہ بھی ٹیکس لگ گیا

حقیقی سوچ کی گہرائی مار ڈالے گا

حقیقی سوچ کی گہرائی مار ڈالے گا
بڑھے گا جھوٹ تو سچائی مار ڈالے گا
میں دوستوں کے تو چُنگل سے بچ گیا ہوں مگر
میں جانتا ہوں مجھے بھائی مار ڈالے گا
میں سارے شہر کی تنہائیوں کا وارث ہوں
جو مجھ کو مارے گا، تنہائی مار ڈالے گا

جھوٹی افواہیں اڑانے میں لگے رہتے ہیں

جھوٹی افواہیں اڑانے میں لگے رہتے ہیں
لوگ بس باتیں بنانے میں لگے رہتے ہیں
حاکمِ شہر تجھے قتل کریں گے یہی لوگ
جو تِرے جوتے اٹھانے میں لگے رہتے ہیں
پہلے تو لوٹتے رہتے تھے لٹیرے اور اب
ایک دوجے کو بچانے میں لگے رہتے ہیں

کوئی خدا تو کوئی ناخدا بنا ہوا ہے

کوئی خدا تو کوئی "ناخدا" بنا ہوا ہے
فقط غریب ہے جو خاکِ پا بنا ہوا ہے
عجب نہیں کہ جبینوں کو داغدار کیے
جسے بھی دیکھو وہی پارسا بنا ہوا ہے
نصیب اٹھا کے کہاں سے کہاں پہ پھینک آیا
جو بادشاہ تھا کل تک، "گدا" بنا ہوا ہے

اگر عذاب ہے تو پھر عذاب ہونے دو

اگر عذاب ہے تو پھر عذاب ہونے دو
ہر اک بشر کا کڑا احتساب ہونے دو
یہ زد میں آۓ تو مُنصف کو مار ڈالیں گے
جو کہہ رہے ہیں کہ سب کا حساب ہونے دو
جو پارسا ہیں یہاں ان کے دیکھنا کرتوت
بس ایک بار انہیں بے نقاب ہونے دو

بغض اگلتا ہے وہی جو بھی یہاں بولتا ہے

بغض اگلتا ہے وہی جو بھی یہاں بولتا ہے
ہر بشر دشنہ و خنجر کی زباں بولتا ہے
پکڑا جائے گا اگر تُو کبھی سچ بول پڑا
جھوٹ اتنا تیرے لہجے سے رواں بولتا ہے
تُو منافق ہے منافق ہے منافق ہے دوست
میں یہاں بولتا ہوں سن کے وہاں بولتا ہے

لوگ لہجہ میرا تلوار سمجھ لیتے ہیں

لوگ، لہجہ میرا تلوار سمجھ لیتے ہیں
میرے لفظوں کو مرا وار سمجھ لیتے ہیں
جنگ میں غیر کو بھی پانی پلا دیتا ہوں
یوں بھی اپنے مجھے غدار سمجھ لیتے ہیں
میں دکھاوے کی عبادت نہیں کرتا یوں بھی
پارسا مجھ کو گنہگار سمجھ لیتے ہیں

عجلت میں دن گزار کے یوں شب کے ہو گئے

عجلت میں دن گزار کے یوں شب کے ہو گئے
مٹی پہ خود کو پھینک دیا اور سو گئے
دونوں کو مار دے گا یہ مشترکہ المیہ
مجبور بھی نہیں تھے مگر دور ہو گئے
وہ لوگ ہائے آنکھ کی بینائی جیسے لوگ
پل بھر کو میرے ہاتھ لگے اور کھو گئے

ہماری شکل اب اول تو پہچانی نہیں جاتی

ہماری شکل اب اول تو پہچانی نہیں جاتی
کوئی پہچان لے تو اس کی حیرانی نہیں جاتی
مسلسل ہی یہیں پر ہے تعلق اتنا گہرا ہے
میں خود باہر چلا جاتا ہوں ویرانی نہیں جاتی
تمہاری بات رد کرنے کا سوچا تھا نہ سوچا ہے
میں اب بھی مان لیتا مجھ سے اب مانی نہیں جاتی

چاند تاروں بھرے تالاب نہیں دیکھیں گے

چاند تاروں بھرے تالاب نہیں دیکھیں گے
آپ جنت میں بھی پنجاب نہیں دیکھیں گے
جن کو جنت بھی ملی ان کا خسارا یہ ہے
اب وہ جنت کے کبھی خواب نہیں دیکھیں گے
کوئی اقرار یا انکار نہیں چمکے گا
شام آئے گی تو مہتاب نہیں دیکھیں گے

Tuesday 26 November 2019

اب جیون خالی کاسہ ہے

اب جیون خالی کاسہ ہے
اب گنتی کی کچھ سانسیں ہیں
اب تھوڑے دنوں کا میلہ ہے
بازار اجڑنے والا ہے
اب مال متاع ختم ہوا
اب تم بازار میں آئے ہو

Friday 22 November 2019

اچھے خاصے دکھتے ہو بیماری میں

اچھے خاصے دِکھتے ہو بیماری میں
یعنی، تم بھی ماہر ہو فن کاری میں
ایک تمہارے نام کی خوشبو زندہ ہے
مر گئی دیمک لکڑی کی الماری میں
جیسے ہی وہ لڑکی آئی، لوگوں نے
دھوپ اترتے دیکھی ژالہ باری میں

کھڑکیاں کھول رہا تھا کہ ہوا آئے گی

کھڑکیاں کھول رہا تھا کہ ہوا آئے گی
کیا خبر تھی کہ چراغوں کو نگل جائے گی
مجھ کو اس واسطے بارش نہیں اچھی لگتی
جب بھی آئے گی، کوئی یاد اٹھا لائے گی
اس نے ہنستے ہوئے کر لی ہیں علیحدہ راہیں
میں سمجھتا تھا کہ بچھڑے گی تو مر جائے گی

شاید کسی بلا کا تھا سایہ درخت پر

شاید کسی بلا کا تھا سایہ درخت پر
چڑیوں نے رات شور مچایا درخت پر
موسم تمہارے ساتھ کا جانے کدھر گیا
تم آئے اور بُور نہ آیا درخت پر
دیکھا نہ جائے دھوپ میں جلتا ہوا کوئی
میرا جو بس چلے کروں سایہ درخت پر

نہیں کہ ذکرِ مہ و مہر ہی ضروری ہے

نہیں کہ ذکرِ مہ و مہر ہی ضروری ہے
پسِ حروف سہی روشنی ضروری ہے
کہیں سے لاؤ کسی زلفِ عنبریں کی ہوا
یہ اب جو حبس ہے اس میں کمی ضروری ہے
اب اس کے قد کے برابر اسے بھی لایا جائے
یہ بات کتنی ہی مشکل سہی ضروری ہے

روشنی حسب ضرورت بھی نہیں مانگتے ہم

روشنی حسبِ ضرورت بھی نہیں مانگتے ہم
رات سے اتنی سہولت بھی نہیں مانگتے ہم
پھر بھی وہ تخت نشیں خوفزدہ رہتا ہے
اپنے حصے کی وراثت بھی نہیں مانگتے ہم
سنگ کو شیشہ بنانے کا ہنر جانتے ہیں
اور اس کام کی اجرت بھی نہیں مانگتے ہم

Thursday 21 November 2019

وہ نہیں ملتا مجھے اس کا گلہ اپنی جگہ

وہ نہیں ملتا مجھے، اس کا گلہ اپنی جگہ
اس کے میرے درمیاں کا، فاصلہ اپنی جگہ
زندگی کے اس سفر میں، سینکڑوں چہرے ملے
دل کشی ان کی الگ، پیکر تیرا اپنی جگہ
تجھ سے مل کر، آنے والے کل سے نفرت مول لی
اب کبھی تجھ سے نہ بچھڑوں، یہ دعا اپنی جگہ

Wednesday 20 November 2019

آوارگی میں محسن اس کو بھی ہنر جانا

آوارگی میں محسن اس کو بھی ہنر جانا
اقرار وفا کرنا، پھر اس سے مکر جانا
جب خواب نہیں کوئی، کیا زندگی کرنا
ہر صبح کو جی اٹھنا، ہر رات کو مر جانا
شب بھر کے ٹھکانے کو اک چھت کے سوا کیا ہے
کیا وقت پہ گھر جانا، کیا دیر سے گھر جانا

اے شب ہجر یاراں مرے پاس آ

اے شبِ ہجرِ یاراں مِرے پاس آ
میرے پہلو میں سو جا 
کہ میں بھی تو بھری بزم میں ہوں اکیلا بہت
میرے پہلو میں سو جا کہ شاید مِرے دکھ کی آغوش میں
تجھ کو سکھ سانس لینے کی فرصت ملے
تجھ کو لوری سنائے اداسی میری

اے مری بے سہاگ تنہائی

اے مِری بے سہاگ تنہائی

اس سے پہلے کہ سوچ کا کندن
شامِ غم کے اجاڑ صحرا میں
جل بجھے، بجھ کے راکھ ہو جائے
اس سے پہلے کہ چاند کا جھومر
درد کی جھیل میں اتر جائے

Tuesday 19 November 2019

زاہد بدل گیا ہے سیانا بدل گیا

زاہد بدل گیا ہے سیانا بدل گیا
ڈنکے کی چوٹ پر ہے زمانہ بدل گیا
الٹا ہماری نسل نے سارا نظام یوں
اپنے بڑوں سے بچوں کا رتبہ بدل گیا
کہہ دو مسافروں سے نہ آئیں وہ لوٹ کر
رستہ یہ ان کے جاتے ہی رستہ بدل گیا

سب گناہ و حرام چلنے دو

سب گناہ و حرام چلنے دو
کہہ رہے ہیں نظام چلنے دو
ضد ہے کیا وقت کو بدلنے کی
یونہی سب بے لگام چلنے دو
بیکسی، بھوک اور مصیبت کا
خوب ہے اہتمام چلنے دو

سارے پردے گریں دیدار تلک پہنچوں میں

سارے پردے گریں دیدار تلک پہنچوں میں
اے مقابل! تِرے کردار تلک پہنچوں میں
دنیا والے مجھے عزت کی نظر سے دیکھیں
کتنا گر جاؤں کہ معیار تلک پہنچوں میں 
بھوک اور ننگ! تِری کون بھلا سنتا ہے
یعنی مر جاؤں تو سرکار تلک پہنچوں میں

پاس آیا کبھی اوروں کے کبھی دور ہوا

پاس آیا کبھی اوروں کے کبھی دور ہوا
گو کہ معمولی سا مہرہ تھا
مگر جیت گیا
یوں اک روز وہ بڑا مہرہ بنا
اب وہ محفوظ ہے اک خانے میں
اتنا محفوظ کہ دشمن تو الگ

Monday 18 November 2019

سوہنی گھاٹ بدل سکتی تھی

سوہنی گھاٹ بدل سکتی تھی
اور کہانی چل سکتی تھی
رانجھا غنڈے لے آتا، تو
ہیر کی شادی ٹل سکتی تھی
سسّی کے بھی اونٹ جو ہوتے
تھل میں کیسے جل سکتی تھی

Sunday 17 November 2019

کبھی تو سانس تری یاد سے جدا نکلے

کبھی تو سانس تِری یاد سے جدا نکلے
ہماری شب کے مقدر سے رتجگا نکلے
عجب نہیں کہ مِرے بعد میرا کُل ترکہ
ہرا بھرا سا بس اک زخم اور دِیا نکلے
بھنور نے گھیر لیا ہے، سو بچ نہ پاؤں گا
یہ عشق کھیل نہیں ہے کہ راستہ نکلے

Saturday 16 November 2019

جو ذرا معتبر ہوا ہے یہاں اس کا پھر اعتبار مشکل ہے

جو ذرا معتبر ہوا ہے یہاں
اس کا پھر اعتبار مشکل ہے
ایک دو بار دھوکا چلتا ہے
یار! یہ بار بار مشکل ہے
ہر کوئی بیچنے ہی نکلا ہے
اس جگہ کاروبار مشکل ہے

سچ بھی مقدار میں ہی ملتا ہے

سچ بھی مقدار میں ہی ملتا ہے
سارا کہہ دوں یا جِتنا میٹھا ہے
میں نے چکھا ہے میری بستی میں
زہر میٹھا ہے، شہد کڑوا ہے
رونا بے کار تو نہیں جاتا
اپنی گڑیا سے میں نے سیکھا ہے

چائے پی اور شرافت سے کھسک لے پگلی

چائے والا

چائے پی اور شرافت سے کھسک لے پگلی
چائے کے بیس روپے ہیں تو وہ دیتی جانا
کیا کہا، تُو نے دکھانی ہے مجھے دنیا نئی
کیا کہا، تُو نے مجھے رنگ نیا دینا ہے؟
کیا کہا، میری جگہ چائے کا ہوٹل تو نہیں
آنکھ نیلم ہے مِری رنگ ہے سونے جیسا

واہمہ؛ رات جاگی تو کہیں صحن میں سوکھے پتے

واہمہ

رات جاگی تو کہیں صحن میں سوکھے پتے
چرمرائے کہ کوئی آیا،۔ کوئی آیا ہے
اور ہم شوق کے مارے ہوئے دوڑے آئے
گو کہ معلوم ہے، تُو ہے نہ تیرا سایا ہے

ہم کہ دیکھیں کبھی دالان، کبھی سوکھا چمن
اس پہ دھیمی سی تمنا کہ پکارے جائیں

کبھی جو دل گرفتہ ہوں تو یونہی ٹھان لیتا ہوں

کبھی جو دل گرفتہ ہوں تو یونہی ٹھان لیتا ہوں
کہ کیمپس کے سبھی ڈھابوں سے کچے نان لیتا ہوں
تمہاری آنکھ میں جادو؟ نہیں ہرگز نہیں، لیکن
چلو تم زور دیتے ہو تو یہ بھی مان لیتا ہوں
مگر تم بھی نا جاناں کس قدر بھولی ہو، بدھو ہو
میں ہفتوں نہ نہا کر بس تمہاری جان لیتا ہوں

اے کہ وجہ سخن

اے کہ وجہِ سخن
جان و رنگِ غزل
کائناتی محبت کا ردِ عمل
اے اداسی کے ہونے میں واحد خلل
تجھ سے نادم ہوں میں
میرے وہم و گماں میں

نقصان

نقصان

جو بات گنتی کے کچھ دنوں سے شروع ہوئی تھی
وہ سالہا سال تک چلی ہے
کئی زمانوں میں بٹ گئی ہے
میں ان زمانوں میں لمحہ لمحہ تمہاری نظروں کے بن رہا ہوں
میں اب تلک بھی تمہارے جانے کا باقی نقصان گن رہا ہوں

سنا ہے تلخئ ایام سے لاچار ہو چکے

سنا ہے تلخئ ایام سے لاچار ہو چکے
برباد ہو چکے، وہ بے زار ہو چکے
گر یوں ہے
تو بے تشنہ و آباد کیوں نہ ہم
سرِ عام کوئی ہجر کا ازالہ کر چلیں
بڑی مشکل سے، اپنے دل سے

Friday 15 November 2019

یہ عشق کرتی اداس نسلوں کا کیا بنے گا

فقیر، موجی، خراب حالوں کا کیا بنے گا
یہ عشق کرتی اداس نسلوں کا کیا بنے گا
ہمارے پُرکھوں نے ہم سے بہتر گزار لی ہے
میں سوچتا ہوں ہمارے بچوں کا کیا بنے گا
ہمارے جسموں کا خاک ہونا تو ٹھیک ہے، پر
تمہاری آنکھوں تمہارے ہونٹوں کا کیا بنے گا

تخت والے ہو تاج والے ہو

تخت والے ہو تاج والے ہو
یہ بتاؤ! کہ لاج والے ہو؟
تم نہ بیٹھو ہماری صحبت میں
تم ذرا کام کاج والے ہو
واقعے کا بھی علم ہے کوئی
یا، فقط احتجاج والے ہو؟

اک نظر سامنے وہ آئے ذرا

اک نظر سامنے وہ آئے ذرا
دل کہیں ٹِک کے بیٹھ جائے ذرا
گاؤں میں ہر طرف اداسی ہے 
اس سے کہنا کہ مسکرائے ذرا
دوست گاڑی تو مل ہی جائے گی
بیٹھ پِیتے ہیں چائے شائے ذرا

یار تھا وہ نہ یار نکلے ہم

یار تھا وہ، نہ یار نکلے ہم
ایک دوجے پہ بار نکلے ہم
اک تعلق بچا نہیں پائے
ایک رنجش کی مار نکلے ہم
اور پھر اشک بن گئے اک دن
اور پھر بے شمار نکلے ہم

Thursday 14 November 2019

کب غم کہے سنے سے کسی بات سے گیا

کب غم کہے سنے سے، کسی بات سے گیا
میں رات تھا، اندھیرا کبھی رات سے گیا
پہلے پہل تھا اس کا محبت سے دل بھرا
پھر رفتہ رفتہ ساری شکایات سے گیا
جانے یہ کیسے فاصلے آئے ہیں درمیاں
مجھ میں جو بس رہا تھا، ملاقات سے گیا

اب تک یہی سنا تھا کہ بازار بک گئے

اب تک یہی سنا تھا کہ بازار بک گئے
اس کی گلی گئے تو خریدار بک گئے
لگنے لگیں ہیں مجھ سے بھی ناقص کی بولیاں
یعنی جہاں کے سارے ہی شہکار بک گئے
جس نے ہمیں خریدا، منافع کما لیا
اپنا ہے یہ کمال کہ ہر بار بک گئے

ٹوٹی پھوٹی تباہ مل جائے

ٹوٹی پھوٹی تباہ مل جائے
کوئی جینے کی راہ مل جائے
مان لوں گا کہ جی رہا ہوں میں
ایک بھی گر گواہ مل جائے
کچھ ہماری بھی راہ روشن ہو
آپ سے گر نگاہ مل جائے

Wednesday 13 November 2019

ملاحوں کا دھیان بٹا کر دریا چوری کر لینا ہے

ملاحوں کا دھیان بٹا کر دریا چوری کر لینا ہے
قطرہ قطرہ کر کے میں نے سارا چوری کر لینا ہے
تم اس کو مجبور کیے رکھنا باتیں کرتے رہنے پر
اتنی دیر میں میں نے اس کا لہجہ چوری کر لینا ہے
میرے خاک اڑانے پر پابندی عائد کرنے والو
میں نے کون سا آپ کے شہر کا رستہ چوری کر لینا ہے

وہی بارش کا موسم ہے

وہی بارش کا موسم ہے
وہی برسے ہوئے غم ہیں
وہی نادان سے ہم ہیں
وہی کاغذ کی کشتی ہے
وہی پانی کے ریلے ہیں
میرے بچپن زرا دیکھو
وہی پھر کھیل کھیلا ہے

زخم دیتے ہو کہتے ہو سیتے رہو

زخم دیتے ہو کہتے ہو سیتے رہو 
جان لے کر کہو گے کہ جیتے رہو 
پیار جب جب زمین پر اتارا گیا 
زندگی تجھ کو صدقے میں وارا گیا 
پیار زندہ رہا مقتلوں میں، مگر 
پیار جس نے کیا ہے وہ مارا گیا 

میں بزنس مین ہوں جاناں میں چھوٹا سا بیوپاری ہوں

 میں بزنس مین ہوں جاناں


میری شہرت، میرا ڈنکا، میرے اعزاز کا سن کر 

کبھی یہ نہ سمجھ لینا میں چوٹی کا لکھاری ہوں

میں بزنس مین ہوں جاناں، میں چھوٹا سا بیوپاری ہوں

میری آڑھت پہ برسوں سے جو مہنگے داموں بکتا تھا 

تیرے غم کا سودا تھا 

یہ جو سر نیچے کئے بیٹھے ہیں

یہ جو سر نیچے کیے بیٹھے ہیں
جان کتنوں کی لیے بیٹھے ہیں
جان ہم سبزۂ خط پر دے کر
زہر کے گھونٹ پیے بیٹھے ہیں
دل کو ہم ڈھونڈتے ہیں چار طرف
اور یہاں آپ "لیے" بیٹھے ہیں

لاکھ دل مست ہو مستی کا عیاں راز نہ ہو

لاکھ دل مست ہو مستی کا عیاں راز نہ ہو
یہ وہ شیشہ ہے کہ ٹوٹے بھی تو آواز نہ ہو
خوف ہے موسمِ گل میں کہ صبا کا جھونکا
طائرِ ہوش کے حق میں پرِ پرواز نہ ہو
دل بہت بلبلِ شیدا کا ہے نازک گلچیں
پھول گلزار کے یوں توڑ کہ آواز نہ ہو

ایک دن بھی تو نہ اپنی رات نورانی ہوئی

ایک دن بھی تو نہ اپنی رات نورانی ہوئی
ہم کو کیا اے مہ جبیں! گر چاند پیشانی ہوئی
سرد مہری کا تِری ساقی! نتیجہ یہ ہوا
آگ کے مولوں جو بکتی تھی وہ مے پانی ہوئی
اللہ اللہ پھوٹ نکلا رنگ چاہت کا مِری
زہر کھایا میں نے پوشاک آپ کی دھانی ہوئی

قاصد آیا مگر جواب نہیں

قاصد آیا، مگر جواب نہیں 
میرے لکھے کا بھی جواب نہیں 
خُم تو ہے ساقیا شراب نہیں 
آسماں ہے، اور آفتاب نہیں 
بن کے بت سب وہ کہہ گزرتے ہیں 
بے دہانی تِرا جواب نہیں 

Tuesday 12 November 2019

فضا میں کیسی اداسی ہے کیا کہا جائے

فضا میں کیسی اداسی ہے، کیا کہا جائے 
عجیب شام یہ گزری ہے، کیا کہا جائے 
کئی گمان ہمیں زندگی پہ گزرے ہیں 
یہ اجنبی ہے کہ اپنی ہے، کیا کہا جائے 
وہ دھوپ دشمنِ جاں تھی سو تھی خموش تھے ہم 
یہ چاندنی ہمیں ڈستی ہے، کیا کہا جائے 

غم و نشاط کی ہر رہ گزر میں تنہا ہوں

غم و نشاط کی ہر رہ گزر میں تنہا ہوں 
مجھے خبر ہے میں اپنے سفر میں تنہا ہوں 
مجھی پہ سنگِ ملامت کی بارشیں ہوں گی 
کہ اس دیار میں شوریدہ سر میں تنہا ہوں 
تِرے خیال کے جگنو بھی ساتھ چھوڑ گئے 
اداس رات کے سُونے کھنڈر میں تنہا ہوں 

چڑھتے دریا سے بھی گر پار اتر جاؤ گے

چڑھتے دریا سے بھی گر پار اتر جاؤ گے
پانو رکھتے ہی کنارے پہ بکھر جاؤ گے
وقت ہر موڑ پہ دیوار کھڑی کر دے گا
وقت کی قید سے گھبرا کے جدھر جاؤ گے
خانہ برباد سمجھ کر ہمیں ڈھلتی ہوئی رات
'طنز سے پوچھتی ہے، 'کون سے گھر جاؤ گے

جانب کوچہ و بازار نہ دیکھا جائے

جانبِ کوچہ و بازار نہ دیکھا جائے 
غور سے شہر کا کردار نہ دیکھا جائے
کھڑکیاں بند کریں چھپ کے گھروں میں بیٹھیں
کیا سماں ہے، پسِِ دیوار نہ دیکھا جائے 
سرخیاں خون میں ڈوبی ہیں سب اخباروں کی 
آج کے دن کوئی اخبار نہ دیکھا جائے 

نہ اب وہ عشق نہ وہ عشق کی ادائیں رہیں

نہ اب وہ عشق نہ وہ عشق کی ادائیں رہیں 
نہ اب وہ حسن نہ وہ حسن کی ہوائیں رہیں 
نہ عشق عشق رہا اب نہ حسن حسن رہا 
نہ وہ وفائیں رہیں اب، نہ وہ جفائیں رہیں 
وہ حسن و عشق کے راز و نیاز ہی نہ رہے 
نہ وہ خطائیں رہیں اب، نہ وہ سزائیں رہیں 

Monday 14 October 2019

مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ

نعتِ سرورِ کونینﷺ

مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم  دیدہ
جبیں افسردہ افسردہ، قدم لغزیدہ لغزیدہ
چلا ہوں ایک مجرم کی طرح میں جانبِ طیبہ
نظر شرمندہ شرمندہ، بدن لرزیدہ لرزیدہ
کہاں میں اور کہاں اس روضۂ اقدس کا نظارہ
نظر اس سمت اٹھتی ہے مگر دزدیدہ دزدیدہ

منصب تو ہمیں مل سکتے تھے لیکن شرط حضوری تھی

‏منصب تو ہمیں مل سکتے تھے لیکن شرط حضوری تھی
یہ شرط ہمیں منظور نہ تھی، بس اتنی سی مجبوری تھی
کہتے ہیں کہیں اک نگری تھی، سلطان جہاں کا جابر تھا
اور جبر کا اذنِ عام بھی تھا، یہ رسم وہاں مجبوری تھی
ہم ٹھوکر کھا کر جب بھی گرے، رہگیروں کو آواز نہ دی
وہ آنکھوں کی معذوری تھی، یہ غیرت کی مجبوری تھی

Sunday 13 October 2019

چراغ دل کا جلاؤ بہت اندھیرا ہے

گیت

چراغ دل کا جلاؤ بہت اندھیرا ہے
کہیں سے لوٹ کے آؤ بہت اندھیرا ہے
چراغ دل کا جلاؤ۔۔۔۔۔

کہاں سے لاؤں وہ رنگت گئی بہاروں کی
تمہارے ساتھ گئی روشنی نظاروں کی
مجھے بھی پاس بلاؤ، بہت اندھیرا ہے
چراغ دل کا جلاؤ۔۔۔۔۔

شام غم کی قسم آج غمگیں ہیں ہم

گیت

شامِ غم کی قسم آج غمگیں ہیں ہم
آ بھی جا! آ بھی جا! آج میرے صنم
شام غم کی قسم 
دل پریشان ہے رات ویران ہے
دیکھ جا کس طرح آج تنہا ہیں ہم
شام غم کی قسم ۔۔۔

جب دل ہی ٹوٹ گیا ہم جی کے کیا کریں گے

گیت

جب دل ہی ٹوٹ گیا
ہم جی کے کیا کریں گے
جب دل ہی ٹوٹ ۔۔۔۔

الفت کا دِیا ہم نے اس دل میں جلایا تھا
امید کے پھولوں سے اس گھر کو سجایا تھا
اک بھیدی لوٹ گیا

او میرے سونا رے سونا رے سونا رے

گیت

او میرے سونا رے سونا رے سونا رے
دے دوں گی جان جدا مت ہونا رے
میں نے تجھے ذرا دیر میں جانا
ہوا قصور خفا مت ہونا رے
او میرے سونا رے سونا رے سونا

تم بن جاؤں کہاں کہ دنیا میں آ کے

گیت

تم بِن جاؤں کہاں کہ دنیا میں آ کے
کچھ نہ پھر چاہا کبھی تم کو چاہ کے
تم بن ۔۔۔۔

رہ بھی سکو گے تم کیسے، ہو کے مجھ سے جدا
ہٹ جائیں گی دیواریں، سن کے میری صدا
آنا ہو گا تمہیں میرے لیے 

Wednesday 9 October 2019

عمر بھر کا ہوا زیاں جاناں

عمر بھر کا ہوا زیاں جاناں
ہم یہاں، اور تم وہاں جاناں
نیند آئی نہیں کئی دن سے 
خواب ہونے لگے گِراں جاناں
کون جانے تیری مِری الجھن
کون سمجھے گا یہ زباں جاناں

تیرے میرے بھی درمیاں جاناں

تیرے میرے بھی درمیاں جاناں
آ گیا موڑ نا گہاں جاناں
فاصلوں کے طویل صحرا میں
ہم نے دیکھے کئی گماں جاناں
شام ہوتے ہی ساحلِ جاں پہ
ڈوب جاتی ہیں کشتیاں جاناں

تمہاری یاد طاری ہو رہی ہے

تمہاری یاد طاری ہو رہی ہے
بڑی ہی یادگاری ہو رہی ہے
تمہیں تو لوٹ کر آنا نہیں ہے
مجھے تو انتظاری ہو رہی ہے
تِرے اندر کہاں سبزہ اُگے گا
خزاں میں کاشتکاری ہو رہی ہے

میں اب اکتا گیا ہوں فرقتوں سے

میں اب اُکتا گیا ہوں فُرقتوں سے
نکالوں کس طرح تجھ کو رگوں سے
جدائی تاک میں بیٹھی ہوئی تھی
محبت کر رہے تھے مشوروں سے
تجھے میں نے مجھے تُو نے گنوایا
مگر اب فائدہ ان تذکروں سے

Tuesday 8 October 2019

طناب خیمہ نہ موج بلا سے ڈر کر کھینچ

طنابِ خیمہ نہ موجِ بلا سے ڈر کر کھینچ
اگر حباب ہے آغوش میں سمندر کھینچ
مِرے حریف کھلے دل سے اب شکست بھی مان
نہ یہ کہ فرطِ ندامت سے منہ پہ چادر کھینچ
مبادا کل کسی بسمل پہ رحم آ جائے
کچھ اور روز ابھی تیغِ ناز ہم پر کھینچ

پتھروں کی بستی میں کاروبار شیشے کا

پتھروں کی بستی میں کاروبار شیشے کا
کوئی بھی نہیں کرتا اعتبار شیشے کا
کانچ سے بنے  پُتلے تھوڑی دور چلتے ہیں
چار دن کا ہوتا ہے یہ خمار شیشے کا
بن سنور کے ہرجائی آج گھر سے نکلا ہے
جانے کون ہوتا ہے پھر شکار شیشے کا

سامنے اس کے کبھی اس کی ستائش نہیں کی

سامنے اُس کے کبھی اُس کی ستائش نہیں کی
دل نے چاہا بھی اگر، ہونٹوں نے جُنبش نہیں کی
اہلِ محفل پہ کب احوال کھلا ہے اپنا
ہم بھی خاموش رہے اُس نے بھی پُرسش نہیں کی
جس قدر اس سے تعلق تھا چلا جاتا ہے
اس کا کیا رنج کہ جس کی کبھی خواہش نہیں کی

چھیڑو تو اس حسین کو چھیڑو جو یار ہو

چھیڑو تو اس حسِین کو چھیڑو جو یار ہو
ایسی خطا کرو جو ادب میں شمار ہو
بیٹھی ہے تہمتوں میں وفا یوں گِھری ہوئی
جیسے کسی حسِین کی گردن میں بار ہو
دن رات مجھ پہ کرتے ہو کتنے حسِین ظلم
بالکل مِری پسند کے مختار کار ہو

ضرورت کی خطا کو بھول جاؤ

ضرورت کی خطا کو بھول جاؤ
ہماری التجا کو بھول جاؤ
یہ خوش فہمی بڑی گمراہ کن ہے
محبت اور وفا کو بھول جاؤ
محبت اس سے رکھو جتنی چاہے
مگر اس بے وفا کو بھول جاؤ

بڑی دلچسپ غفلت ہو گئی ہے

بڑی دلچسپ غفلت ہو گئی ہے
اچانک ان سے الفت ہو گئی ہے
غمِ جاناں بھی گو اک حادثہ ہے
غمِ دوراں سے فرصت ہو گئی ہے
تمہیں کچھ علم ہے کہتی ہے دنیا
مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے

رات کتنی مست ہے شوق کیا جوان ہے

رات کتنی مست ہے
شوق کیا جوان ہے
فرشِ گُل ہے زیرِ پا
سر پہ آسمان ہے
ہر نظر ہے التجا
ہر ادا زبان ہے

صنم خانۂ خیال

صنم خانۂ خیال

شیریں لبوں میں خلد کا مفہوم بے نقاب
زلفوں میں جھومتی ہوئی موجِ جنوں نواز
موجِ جنوں نواز میں طوفانِ بے خودی
طوفانِ بے خودی میں تمناؤں کا گداز
باتوں میں لہلہاتی ہوئی جام کی کھنک
اور جام کی کھنک میں بہاروں کے برگ و ساز

Monday 7 October 2019

تنگی رزق سے ہلکان رکھا جائے گا کیا

تنگئ رزق سے ہلکان رکھا جائے گا کیا
دو گھروں کا مجھے مہمان رکھا جائے گا کیا
تجھے کھو کر تو تِری فکر بہت جائز ہے
تجھے پا کر بھی تِرا دھیان رکھا جائے گا کیا
کس بھروسے پہ اذیت کا سفر جاری ہے
دوسرا مرحلہ آسان رکھا جائے گا کیا

بچھڑ گیا تھا کوئی مر نہیں گیا تھا میں

ہوا کے رخ پہ دِیا دھر نہیں گیا تھا میں
بچھڑ گیا تھا کوئی مر نہیں گیا تھا میں
یہ اور بات کہ میں نامراد لوٹ آیا
مگر قطار میں لگ کر نہیں گیا تھا میں
سبھی نے دیکھا مجھے اجنبی نگاہوں سے
کہاں گیا تھا، اگر گھر نہیں گیا تھا میں

مڑ کے تکتے نہیں پتوار کو لوگ

مُڑ کے تکتے نہیں پتوار کو لوگ
ایسے جاتے ہیں ندی پار کو لوگ
میں تو منزل کی طرف دیکھتا ہوں
دیکھتے ہیں مِری رفتار کو لوگ
سائے کا شکر ادا کرنا تھا
سجدہ کرتے رہے دیوار کو لوگ

تیر کر کوئی پار جاتا رہا

تیر کر کوئی پار جاتا رہا 
کشتیوں کا وقار جاتا رہا
جب تک اسکی گرفت ڈھیلی پڑی
میرا شوقِ فرار جاتا رہا
ایک تیرے ذیادہ پینے سے
دوسروں کا خمار جاتا رہا

ماں جہاں بستی ہے ہر چیز وہیں اچھی ہے

ماں جہاں بستی ہے ہر چیز وہیں اچھی ہے
آسماں! تیرے ستاروں سے زمیں اچھی ہے
ماں کے ہونے سے مِری عمرِ رواں ساکن ہے
سر پہ اک ابرِ خنک، سایہ کناں ساکن ہے
ماں کا ہونا عملِ خیر کے ہونے کی دلیل
ریگِ ہستی میں دمکتے ہوئے سونے کی دلیل

سبز سے سفید میں آنے کا غم

سبز سے سفید میں آنے کا غم

نظر اٹھاؤں تو سنگ مر مر کی کور، بے حس سفید آنکھیں
نظر جھکاؤں تو شیرِ قالین گھورتا ہے
مِرے لیے اس محل میں آسودگی نہیں ہے
کوئی مجھے ان سفید پتھر کے
گنبدوں سے رہا کرائے
میں اک صدا ہوں

چل اے دل آسمان پر چل

چل اے دل آسماں پر چل
چل اے دل آسماں پر چل
وہاں سے چل کے اس پُرشور بزمِ ہست کو دیکھیں
بلند و پست کو دیکھیں
زمیں کی سرنگونی آسماں سے کیسی لگتی ہے
پہاڑوں کی سرافرازی وہاں سے کیسی لگتی ہے

Saturday 5 October 2019

میرے بدن پر بیٹھے ہوئے گدھ

مادرِ وطن کا نوحہ

میرے بدن پر بیٹھے ہوئے گِدھ
میرے گوشت کی بوٹی بوٹی نوچ رہے ہیں
میری آنکھیں، میرے حسیں خوابوں کے نشیمن
میری زباں، موتی جیسے الفاظ کا درپن
میرے بازو، خوابوں کی تعبیر کے ضامن
میرا دل، جس میں ہر ناممکن بھی ممکن

خود فریبی کا اک بہانہ تھا

خلا

خود فریبی کا اک بہانہ تھا
آج اس کا فسوں بھی ٹوٹ گیا
آج کوئی نہیں ہے دور و قریب
آج ہر ایک ساتھ چھوٹ گیا
چند آنسو تھے بہہ گئے وہ بھی
دل میں اک آبلہ تھا پھوٹ گیا

نہ چھڑا سکو گے دامن

فلمی گیت

نہ چُھڑا  سکو گے دامن، نہ نظر بچا سکو گے
جو میں دل کی بات کہہ دوں تو کہیں نہ جا سکو گے
نہ چُھڑا سکو گے دامن

وہ حسین سا تصور جسے تم نے زندگی دی
اسے بھول کر بھی شاید نہ کبھی بھلا سکو گے
نہ چھڑا سکو گے دامن

نوازش کرم شکریہ مہربانی

فلمی گیت

نوازش کرم شکریہ مہربانی
مجھے بخش دی آپ نے زندگانی
نوازش، کرم، شکریہ

جوانی کی جلتی ہوئی دوپہر میں
یہ زلفوں کے سائے گھنیرے گھنیرے
عجب دھوپ چھاؤں کا عالم ہے طاری

Thursday 3 October 2019

یہ کون بزم سے اٹھا کہ بزم ہی نہ رہی

یہ کون بزم سے اٹھا کہ بزم ہی نہ رہی
دلوں میں آگ، چراغوں میں روشنی نہ رہی
بنائی عاقبت اپنی تو پاک بازوں نے
یہ اور بات ہے، دنیا رہی، رہی، نہ رہی
نہ پوچھ رک گئیں کیوں گردشیں زمانے کی
بنے وہ دوست تو دنیا سے دشمنی نہ رہی

جاتی ہیں سبھی راہیں مے خانے کو کیا کہیے

جاتی ہیں سبھی راہیں میخانے کو، کیا کہیۓ
توبہ کے ہوئے ٹکڑے، پیمانے کو کیا کہیۓ
آنا ہے تو جانا ہے، جانا ہے تو آنا ہے
اس آنے کو کیا کہیۓ، اس جانے کو کہیۓ
سو بجلیاں رقصاں ہیں ہر تِنکے کے سینے میں
تعمیرِ خرابی ہے، کاشانے کو کیا کہیۓ 

رہ وفا میں ضرر سود مند ہے یارو

رہِ وفا میں ضرر سُود مند ہے یارو
ہے درد اپنی دوا، زہر قند ہے یارو
گھٹا بڑھا کے بھی دیکھا، مگر نہ بات بنی
غزل کا روپ "روایت پسند" ہے یارو
کُھلا جسے غلطی سے میں چھوڑ آیا تھا
مِرے لیے وہی دروازہ بند ہے یارو

حال دل ان سے کسی عنواں بیاں کر دیکھتے

حالِ دل ان سے کسی عنواں بیاں کر دیکھتے
اپنی رُوداد محبت، داستاں کر دیکھتے
دیکھ لیتے برقِ سوزاں میں ہے کتنا حوصلہ 
ہم بھی شاخ گُل پہ تعمیر آشیاں کر دیکھتے
ضبط اگر دیتا اجازت ہم کو اے پاسِ وفا
جوشِ غم میں جرأتِ آہ و فغاں کر دیکھتے

قصہ ایک بسنت کا

قصہ ایک بسنت کا

پتنگیں لُوٹنے والوں کو کیا معلوم کس کے ہاتھ کا مانجھا کھرا تھا اور کس کی
ڈور ہلکی تھی
انہیں اس سے غرض کیا پیچ پڑتے وقت کن ہاتھوں میں لرزہ آ گیا تھا
اور کس کی کھینچ اچھی تھی
ہوا کس کی طرف تھی، کون سی پالی کی بیری تھی؟

مکالمہ

مکالمہ

ہوا کے پردے میں کون ہے جو چراغ کی لو سے کھیلتا ہے
کوئی تو ہو گا
جو خلعتِ انتساب پہنا کے وقت کی رَو سے کھیلتا ہے
کوئی تو ہو گا
حجاب کو رمزِ نور کہتا ہے اور پَرتو سے کھیلتا ہے
کوئی تو ہو گا

عجب گھڑی تھی

عجب گھڑی تھی
کتاب کیچڑ میں گر پڑی تھی
چمکتے لفظوں کی میلی آنکھوں میں الجھے آنسو بلا رہے تھے
مگر مجھے ہوش ہی کہاں تھا
نظر میں ایک اور ہی جہاں تھا
نئے نئے منظروں کی خواہش میں اپنے منظر سے کٹ گیا ہوں

خوف کے موسم میں لکھی گئی ایک نظم

خوف کے موسم میں لکھی گئی ایک نظم

وہ طائر جو کبھی اپنے پر و بال آزمانا چاہتے تھے
ہواؤں کے خد و خال آزمانا چاہتے تھے
آشیانوں کی طرف جاتے ہوۓ ڈرنے لگے ہیں
کون جانے کون سا صیاد کیسی وضع کے جال آزمانا چاہتا ہو
کون سی شاخوں پہ کیسے گل کھلانا چاہتا ہو

Tuesday 1 October 2019

ایسے لاحق ہوا یہ شہر کا ویرانہ مجھے

ایسے لاحق ہوا یہ شہر کا ویرانہ مجھے
روز اک خوف لپٹ جاتا ہے انجانا مجھے
روز اک درد مجھے راہ میں آ ملتا ہے
اور کہتا ہے سلام، آپ نے پہچانا مجھے
ٹھیک ہے خود بھی ہوں میں اپنے دکھوں کا باعث
سہنا پڑتا ہے جہاں تیرا بھی روزانہ مجھے

میں ہر رات سونے سے پہلے

باتیں

میں ہر رات سونے سے پہلے
بہت ساری باتیں
لپیٹ کے تکیے کے نیچے رکھ دیتا ہوں
اور خوابوں میں
انہیں دوسروں کے تکیوں کے نیچے
تلاش کرتا ہوں

فرحت عباس شاہ

رات کچھ دیر ٹھہر

رات! کچھ دیر ٹھہر
اور ذرا بڑھنے دے تاریکئ بے نیلِ مرام
اور چھپنے دے لگے زخم تمام
روح کے شہر میں کچھ ایسا اندھیرا کر دے
ایک اک نقش کا مٹ جائے وجود
خامشی چاٹ لے آوازوں کو

آنکھیں تلخیوں سے بھری ہوئی پیالیاں ہیں

تلخی

آنکھیں تلخیوں سے بھری ہوئی پیالیاں ہیں
دل کوئی دکھا ہوا زخم
آتی جاتی ہوئی سانس 
دل کو چھیل کر گزرتی ہے
پیالیاں اور زیادہ بھر جاتی ہیں

فرحت عباس شاہ

چلو محبت میں جیتنا جیتنا کھیلتے ہیں

چلو محبت میں جیتنا جیتنا کھیلتے ہیں
اور نفرت میں ہارنا، ہارنا
حالانکہ مجھے پتہ ہے
تم محبت میں ہار جاؤ گے
اور میں نفرت میں 
لیکن پھر بھی ایک بار کھیل، کھیل لینے میں حرج ہی کیا ہے

فرحت عباس شاہ

اپنی اپنی مدت پوری کرنے والے

دکھی

اپنی اپنی مدت پوری کرنے والے
بہت ساری مدتیں پوری کرنا چاہتے ہیں
اور اپنی آدھی کھو بیٹھتے ہیں
اور دکھی ہو جاتے ہیں

فرحت عباس شاہ

Sunday 29 September 2019

غزال آنکھوں کو مہ جبینوں کو دیکھتے ہیں

غزال آنکھوں کو، مہ جبینوں کو دیکھتے ہیں
پرانے شاعر نئی زمینوں کو دیکھتے ہیں
تو علم ہوتا ہے سانپ بِچھو پلے ہوۓ تھے
اگر کبھی اپنی آستینوں کو دیکھتے ہیں
یہ بھید کھلتا ہے تب کہ کوئی رکا نہیں ہے
کھنڈر نما دل میں جب مکینوں کو دیکھتے ہیں

دل بچپن کے سنگ کے پیچھے پاگل ہے

دل بچپن کے سنگ کے پیچھے پاگل ہے
کاغذ، ڈور، پتنگ کے پیچھے پاگل ہے
یار! میں اتنی سانولی کیسے بھاؤں تجھے
ہر کوئی گورے رنگ کے پیچھے پاگل ہے
شہزادی، شہزادہ خوش، اور بنجارہ
ٹوٹی ہوئی اک ونگ کے پیچھے پاگل ہے

ہونے ہیں شکستہ ابھی اعصاب لگی شرط

ہونے ہیں شکستہ ابھی اعصاب، لگی شرط
دھتکارنے والی ہوں میں سب خواب، لگی شرط
اے شام کے بھٹکے ہوئے ماہتاب، سنبھل کر
ہے گھات میں بستی کا یہ تالاب، لگی شرط
اچھا تو وہ تسخیر نہیں ہوتا کسی سے؟
یہ بات ہے تو آج سے احباب، لگی شرط

زرد چہرہ ہے مرا زرد بھی ایسا ویسا

زرد چہرہ ہے مِرا زرد بھی ایسا ویسا 
ہجر کا درد ہے اور درد بھی ایسا ویسا 
ایسی ٹھنڈک کہ جمی برف ہر اک خواہش پر 
سرد لہجہ تھا کوئی سرد بھی ایسا ویسا 
اب اسے فرصت احوال میسر ہی نہیں 
وہ جو ہمدرد تھا ہمدرد بھی ایسا ویسا 

Saturday 28 September 2019

دل کے احساس میں شامل ہے ضرورت اس کی

دل کے احساس میں شامل ہے ضرورت اس کی
میرے سینے میں دھڑکتی ہے محبت اس کی
آئینہ ہو کہ بھی میں دیکھ نہیں پاتا اسے 
آن کی آن بدل جاتی ہے صورت اس کی
میرے ہاتھوں سے یہ کشکول گرے تو مانو 
یوں تو مشہور ہے دنیا میں سخاوت اس کی

ہوا نہ مجھ سے کوئی ہمکلام گردش میں

ہُوا نہ مجھ سے کوئی ہم کلام گردش میں 
دھواں ہوۓ ہیں مِرے صبح و شام گردش میں
خیال و خواب ہوا ہر زمانۂ وحشت 
اتر چکے ہیں سبھی خوش خرام گردش میں
میں بھاگتا ہوں سرِ دشتِ کربلا اور پھر 
اضافہ کرتے ہیں آ کر امام گردش میں

خوشا کے وقت سے اذن سفر ملا ہے مجھے

خوشا کے وقت سے اذنِ سفر ملا ہے مجھے 
تمام شہر سرِ رہگزر ملا ہے مجھے
میں ڈھال سکتا ہوں ہر شے کو اپنے سانچے میں 
مِرے عزیز! بلا کا ہنر ملا ہے مجھے
یہ سوچتا ہوں مجھے کس طرح سے مل پاتا 
سکوں بھی وہ جو تجھے دیکھ کر ملا ہے مجھے

کولاژ

کولاژ

اس نے مٹھی کے گلداں میں ٹہنی رکھی
پتیوں کے کنارے چمکنے لگے
پھول بھرنے لگے اور چھلکنے لگے

اس نے پاؤں دَھرے گھاس کے فرش پر
پاؤں کا دُودھیا پن سوا ہو گیا
سبزہ پہلے سے زیادہ ہرا ہو گیا

مجھے اب اور نا سینا

مجھے اب اور نا سینا

وہ تیزی سے اُدھڑتا جا رہا تھا
ہر اک دن اس کے بخیوں سے الجھ کر رات ہو جاتا
وہ روزانہ
بساطِ روز و شب پہ سانس کے مہرے چلا کر مات ہو جاتا
وہ سینہ کھول دیتا اور گہری سوچ میں رہتا

ہم شاعر ہوتے ہیں

ہم شاعر ہوتے ہیں
ہم پیدا کرتے ہیں
ہم گیلی مٹی کو مٹھی میں بھینچا کرتے ہیں
تو شکلیں بنتی ہیں
ہم ان کی چونچیں کھول کے سانسیں پھونکا کرتے ہیں
جو مٹی تھے، وہ چھو لینے سے طائر ہوتے ہیں

سواگت

سواگت 

گھر کا دروازہ کھلا
کتنے دن بعد اسے سانس آیا
کتنے دن بعد اسے اپنوں کی بچھڑی ہوئی خوشبو آئی
ماں نے پیشانی کو ہونٹوں سے چھوا باپ نے سر پہ ہتھیلی رکھی
دو بھتیجوں نے اسے سہما ہوا پیار کیا

Friday 27 September 2019

ہم نے سوچا تھا خدوخال کے جادو سے ادھر

ہم نے سوچا تھا خدوخال کے جادو سے ادھر
اپنے جیون کے شب و روز بِتا ڈالیں گے
آرزو حسن پرستی کی مٹا ڈالیں گے
زیست میں راہ نہ دیں گے کسی رنگینی کو
خوش جمالوں کے نہ احسان اٹھائیں گے کبھی
پھول خوابوں کے نہ سوچوں میں کھلائیں گے کبھی

دیے سے جب دیا جلتا رہے گا

دِیے سے جب دِیا جلتا رہے گا 
اجالا پھُولتا پھلتا رہے گا 
زمیں پر بارشیں ہوتی رہیں گی 
سمندر ابر میں ڈھلتا رہے گا
تلاطم ہو کہ دریا میں سکوں ہو
گُہر تو سیپ میں پلتا رہے گا

استقلال؛ دھیرے دھیرے چلتے رہنا

اِستقلال

دھیرے دھیرے چلتے رہنا
ہے درپیش طویل  مسافت
تھک جاؤ گے تیز روی سے
تھوڑی دیر میں قوت ساری
ہو جائے گی صَرف سفر میں
ایسے میں منزل کی جانب
کسی طرح تم جا نہ سکو گے

شجر بے دست و پا ہیں ابتلا کو کون روکے گا

شجر بے دست و پا ہیں ابتلاء کو کون روکے گا 
ہوا پتے گرائے گی، ہوا کو کون روکے گا؟
یہی بہتر ہے افشاء خود ہی کر دے اپنے رازوں کو
نہیں تو کل تِرے راز آشنا کو کون روکے گا؟
چلو بالفرض ہم ایماں نہیں لاتے تغیر پر
خیال اٹھتا ہے یہ، صبح و مسا کو کون روکے گا

اچھا نہیں کہ اوج سے پندار گر پڑے

اچھا نہیں کہ اوج سے پندار گر پڑے
اتنا نہ سر اُٹھا کہ دستار گر پڑے
ہو گا تمہیں بھی رنج ہنسے گا اگر کوئی
ٹھوکر سے تم جہاں سرِ بازار گر پڑے
جلتے ہیں دھوپ میں کہ یہ رہتا ہے ڈر ہمیں
سائے میں بیٹھتے ہی نہ دیوار گر پڑے

Thursday 26 September 2019

پانی ٹوٹ نہیں سکتا

پانی ٹوٹ نہیں سکتا
لیکن ضد پر آ جاۓ تو
 پتھر چھلنی ہو جاتے ہیں
لوہے کی زنجیریں، تالے اور سلاخیں
زنگ میں ڈوب کے مر جاتی ہیں

عابی مکھنوی

عمر اب کیوں نہیں آتا

عمرؓ اب کیوں نہیں آتا

میں آنکھیں جو ذرا کھولوں
کلیجہ منہ کو آتا ہے
سڑک پر سرد راتوں میں
پڑے ہیں برف سے بچے
دسمبر لوٹ آیا ہے
عمرؓ اب بھی نہیں آیا

سورج سانجھا ہوتا ہے نا

سورج سانجھا ہوتا ہے نا؟
سورج سب کا ہوتا ہے نا؟
تیری دنیا روشن کیسے؟
مجھ کو کِرنیں ڈستی کیوں ہیں؟
سانسیں سانسیں ہوتی ہیں نا؟
تیری ہوں یا میری ہوں وہ

اے دست شناسو بتلاؤ

اے دست شناسو! بتلاؤ
جو ہاتھ لکیریں کھو بیٹھے
پھر ان کی قسمت کیا ہو گی
جو سب کو جنت دیتے ہیں
وہ دوزخ میں کیوں جلتے ہیں

فیل بانو

فیل بانو 
گھر میں ہاتھی کون رکھتا ہے
زرا تم اپنے دروازوں کے قد تو ناپ لیتے
جہاں پر فیل بانی ہو
وہاں اگر چیونٹیاں پامال ہو جائیں تو حیرانی نہیں ہوتی

وحید احمد

Tuesday 24 September 2019

فقط ہم تم ہی بدلے ہیں

فقط ہم تم ہی بدلے ہیں

چلو پھر لوٹ جائیں ہم جہاں پہ کچھ نہیں بدلا
نہ ماہ و سال ہیں بدلے نہ ماضی حال ہیں بدلے
وہاں پہ لوٹ جائیں ہم جہاں معلوم ہو کے بس
نہیں کچھ اور ہے بدلا فقط ہم تم ہی بدلے ہیں
وہی مٹی وہی خوشبو وہی سوندھی فضائیں ہیں
وہی گلزار منظر تو وہی من چاہی راہیں ہیں

محبت چھوڑ دو کرنا

محبت چھوڑ دو کرنا

محبت ہی نہیں لازم 
نبھانا بھی ضروری ہے 
اگر ایسا نہیں ممکن
محبت چھوڑ دو کرنا  
محبت تب ہی تم کرنا 
کہ جب احساس شامل ہو 

Saturday 21 September 2019

کیا مٹی میں ڈھونڈ رہے ہو کیا رکھا ہے جالوں میں

دیواروں پہ چڑھ جاتی ہیں بیلیں اتنے سالوں میں
کیا مٹی میں ڈھونڈ رہے ہو کیا رکھا ہے جالوں میں
سونے جیسے لمحے جھونکے ہم نے وقت کی بھٹی میں
کندن بنتے بنتے اب تو چاندی اتری بالوں میں
منظر ایسا دیکھا ہے کیا چاند بھنور میں کھونے کا
ڈِمپل پڑتے دیکھے ہیں کیا تم نے اس کے گالوں میں

یک طرفہ محبت

یکطرفہ محبت

یک طرفہ محبت بھی
کیا خوب محبت ہے
دیوار کے پیچھے سے
دیوار نکلتی ہے
برسوں‌ کی ریاضت بھی

Friday 20 September 2019

اکیلے ایک ہم نہیں

اکیلے ایک ہم نہیں

کبھی کبھی یہ سوچ کر بهی
اپنے رنج کم ہوئے
کہ اس کٹهن سراب میں
حیات کے عذاب میں
اکیلے ایک ہم نہیں
بہت ہیں لوگ اور بهی

تو کیا تم اتنی ظالم ہو

تو کیا

تو کیا تم اتنی ظالم ہو
مِرے تیمار داروں سے
مسیحا جب یہ کہہ دیں گے
دوا تاثیر کھو بیٹھی
دُعا کا وقت آ پہنچا

وہ کھیل محبت کا

وہ کھیل محبت کا

کردار تھے ہم جس کے
وہ کھیل محبت کا
جس شخص نے لکھا تھا
اس شخص نے جو چاہا
وہ کر کے دکھایا بھی
اور آخری منظر میں
اس کھیل میں باقی تھا

ہم نے کوشش بھی کی

ہم نے  کوشش بھی کی
اک ملاقات ہو
وصل کا دن چڑھے
ختم یہ رات ہو
دوستوں نے مگر
ایک چلنے نہ دی
وہ جو ڈھل سکتی تھی
رات ڈھلنے نہ دی

چاہتا ہے کہ اسے چاند پکارا جائے

ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا لیکن
وہ جو آیا ہے مِرے گھر میں اندھیرے لے کر
چاہتا ہے کہ اسے چاند پکارا جائے

راشد مراد

گل فروشوں کا شہر ہے اس میں

گُل فروشوں کا شہر ہے، اس میں
پھول ملتے نہیں ٹھکانے پر
تتلیاں جا بجا بھٹکتی ہیں

راشد مراد

میں تجھے چاہتا نہیں لیکن

تجزیہ

میں تجھے چاہتا نہیں، لیکن
پھر بھی جب پاس تُو نہیں ہوتی
خود کو کتنا اداس پاتا ہوں
گم سے اپنے حواس پاتا ہوں
جانے کیا دھن سمائی رہتی ہے
اک خموشی سی چھائی رہتی ہے
دل سے بھی گفتگو نہیں ہوتی