تیر کر کوئی پار جاتا رہا
کشتیوں کا وقار جاتا رہا
جب تک اسکی گرفت ڈھیلی پڑی
میرا شوقِ فرار جاتا رہا
ایک تیرے ذیادہ پینے سے
سب کو آتا تھا تعزیت کا ڈھب
صرف میں بار بار جاتا رہا
نقد والوں پہ تھی دکاں بندی
اور اس کو اُدھار جاتا رہا
اظہر فراغ
No comments:
Post a Comment