رات کتنی مست ہے
شوق کیا جوان ہے
فرشِ گُل ہے زیرِ پا
سر پہ آسمان ہے
ہر نظر ہے التجا
ابرووٴں میں گیت ہے
انکھڑیوں میں تان ہے
اک گِرہ اُدھیڑ د ے
گیسووٴں کے جال کو
چار سُو بکھیر کر
دیکھتی ہوں راستہ
نین پھیر پھیر کر
کاش لائے چاندنی
کوئی صید گھیر کر
دیکھ دیکھ ر ے سجن
اب نہ اتنی دیر کر
آ کے مجھ کو بھینچ لے
مے سے ہونٹ سینچ لے
عبدالحمید عدم
No comments:
Post a Comment