رہِ وفا میں ضرر سُود مند ہے یارو
ہے درد اپنی دوا، زہر قند ہے یارو
گھٹا بڑھا کے بھی دیکھا، مگر نہ بات بنی
غزل کا روپ "روایت پسند" ہے یارو
کُھلا جسے غلطی سے میں چھوڑ آیا تھا
غزل سرائی تھی جس کیلئے، بغیر اس کے
گُلوں کا خندۂ لب، زہر خند ہے یارو
مجھے خبر ہے کہ اپنی خبر نہیں مجھ کو
مِرے سوا بھی کوئی ہوش مند ہے یارو؟
ملے جو دستِ تمنا سے کیوں نہ پی جاؤں
وہ زہر بھی تو مِرے حق میں قند ہے یارو
نہ جانے توڑ کے اڑ جاۓ گی کہاں اک دن
حصارِ جسم میں جو روح بند ہے یارو
زمیں پہ رہتا ہے، اڑتا ہے آسمانوں پر
ضؔیا کی پستی بھی کتنی بلند ہے یارو
ضیا فتح آبادی
No comments:
Post a Comment