تمہاری یاد طاری ہو رہی ہے
بڑی ہی یادگاری ہو رہی ہے
تمہیں تو لوٹ کر آنا نہیں ہے
مجھے تو انتظاری ہو رہی ہے
تِرے اندر کہاں سبزہ اُگے گا
مِرے اندر کوئی لڑ مر رہا ہے
بڑی تخریب کاری ہو رہی ہے
مجھی پہ ڈال دے سارا خسارہ
تجھے کیوں شرمساری ہو رہی ہے
تِرے کوچے میں تو سازش ہوئی تھی
وہاں کیوں آہ و زاری ہو رہی ہے
یہ دنیا کی محبت، اور یہ دنیا
تمہاری تھی، تمہاری ہو رہی ہے
درِ افلاک سے کیا جھانکتا ہے
زمیں پہ مارا ماری ہو رہی ہے
زمیں پر ایک ملک ایسا ہے، جس میں
غضب کی دِینداری ہو رہی ہے
عارف اشتیاق
No comments:
Post a Comment