Wednesday, 9 October 2019

تمہاری یاد طاری ہو رہی ہے

تمہاری یاد طاری ہو رہی ہے
بڑی ہی یادگاری ہو رہی ہے
تمہیں تو لوٹ کر آنا نہیں ہے
مجھے تو انتظاری ہو رہی ہے
تِرے اندر کہاں سبزہ اُگے گا
خزاں میں کاشتکاری ہو رہی ہے
مِرے اندر کوئی لڑ مر رہا ہے
بڑی تخریب کاری ہو رہی ہے
مجھی پہ ڈال دے سارا خسارہ
تجھے کیوں شرمساری ہو رہی ہے
تِرے کوچے میں تو سازش ہوئی تھی
وہاں کیوں آہ و زاری ہو رہی ہے
یہ دنیا کی محبت، اور یہ دنیا
تمہاری تھی، تمہاری ہو رہی ہے
درِ افلاک سے کیا جھانکتا ہے
زمیں پہ مارا ماری ہو رہی ہے
زمیں پر ایک ملک ایسا ہے، جس میں
غضب کی دِینداری ہو رہی ہے

عارف اشتیاق

No comments:

Post a Comment