ایسے لاحق ہوا یہ شہر کا ویرانہ مجھے
روز اک خوف لپٹ جاتا ہے انجانا مجھے
روز اک درد مجھے راہ میں آ ملتا ہے
اور کہتا ہے سلام، آپ نے پہچانا مجھے
ٹھیک ہے خود بھی ہوں میں اپنے دکھوں کا باعث
دیکھنا ہوتا ہے اک خواب تِرے ملنے کا
اور پھر ہوتا ہے اس خواب کو بہلانا مجھے
اب نہ خوشبو تِری ہوتی ہے نہ آواز نہ چپ
بھاری پڑتا ہے کہیں اور سے گھر آنا مجھے
درد کا درد سے کرتا ہے بھلا کوئی علاج
ٹھیک بنتا ہے نا اس بات پہ ہرجانہ مجھے
حالانکہ عشق سے بڑھ کر کوئی دانائی نہیں
اور کچھ لوگ کہے جاتے ہیں دیوانہ مجھے
اب اگر مل بھی گیا تو تو میں مرجاؤں گا
لے چکا نرغے میں یوں ہجر کا غمخانہ مجھے
بھیج دیتا ہوں عنایات شہی پر لعنت
کام تو آتا ہے یارو یہ فقیرانہ مجھے
مجھ کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا فرؔحت
مارڈالے گا تِرا ایسے چلے جانا مجھے
فرحت عباس شاہ
No comments:
Post a Comment