جاتی ہیں سبھی راہیں میخانے کو، کیا کہیۓ
توبہ کے ہوئے ٹکڑے، پیمانے کو کیا کہیۓ
آنا ہے تو جانا ہے، جانا ہے تو آنا ہے
اس آنے کو کیا کہیۓ، اس جانے کو کہیۓ
سو بجلیاں رقصاں ہیں ہر تِنکے کے سینے میں
ہے مرغ قفس! تیری پرواز میں کوتاہی
خود دام بچھاتا ہے، پھر دانے کو کیا کہیۓ
واعظ! تِری جنت کو ہم نے غمِ ہستی میں
کھو کر ہی اگر پایا، اس پانے کو کیا کہیۓ
سر میری غزل سن کر دُھنتے ہیں جو کہتے تھے
آنکھوں سے لہو دل کا برسانے کو کیا کہیۓ
مر مر کے ضؔیا ہم نے کاٹی ہے شبِ حرماں
تا صبح تڑپنے اور تڑپانے کو کیا کہیۓ
ضیا فتح آبادی
No comments:
Post a Comment