سبز سے سفید میں آنے کا غم
نظر اٹھاؤں تو سنگ مر مر کی کور، بے حس سفید آنکھیں
نظر جھکاؤں تو شیرِ قالین گھورتا ہے
مِرے لیے اس محل میں آسودگی نہیں ہے
کوئی مجھے ان سفید پتھر کے
گنبدوں سے رہا کرائے
مگر یہاں گنگ ہو گیا ہوں
مِرے لیے تو
انہیں درختوں کے سبز گنبد میں شانتی تھی
جہاں میری بات گونجتی تھی
خورشید رضوی
No comments:
Post a Comment