Monday, 7 October 2019

سبز سے سفید میں آنے کا غم

سبز سے سفید میں آنے کا غم

نظر اٹھاؤں تو سنگ مر مر کی کور، بے حس سفید آنکھیں
نظر جھکاؤں تو شیرِ قالین گھورتا ہے
مِرے لیے اس محل میں آسودگی نہیں ہے
کوئی مجھے ان سفید پتھر کے
گنبدوں سے رہا کرائے
میں اک صدا ہوں
مگر یہاں گنگ ہو گیا ہوں
مِرے لیے تو
انہیں درختوں کے سبز گنبد میں شانتی تھی
جہاں میری بات گونجتی تھی

خورشید رضوی

No comments:

Post a Comment