عجب گھڑی تھی
کتاب کیچڑ میں گر پڑی تھی
چمکتے لفظوں کی میلی آنکھوں میں الجھے آنسو بلا رہے تھے
مگر مجھے ہوش ہی کہاں تھا
نظر میں ایک اور ہی جہاں تھا
نئے نئے دائروں کی گردش میں اپنے محور سے ہٹ گیا ہوں
صِلہ، جزا، خوف، بے یقینی
امید، اِمکان، نا امیدی
ہزار خانوں میں بٹ گیا ہوں
اب اس سے پہلے کہ رات اپنی کمند ڈالے یہ سوچتا ہوں کہ لَوٹ جاؤں
عجب نہیں وہ کتاب اب بھی وہیں پڑی ہو
عجب نہیں آج بھی مِری راہ دیکھتی ہو
چمکتے لفظوں کی میلی آنکھوں میں الجھے آنسو
ہوا و حِرص و ہوس کی سب گرد صاف کر دیں
عجب نہیں میرے لفظ مجھ کو معاف کر دیں
عجب گھڑی تھی
کتاب کیچڑ میں گر پڑی تھی
افتخار عارف
No comments:
Post a Comment