Monday 7 October 2019

بچھڑ گیا تھا کوئی مر نہیں گیا تھا میں

ہوا کے رخ پہ دِیا دھر نہیں گیا تھا میں
بچھڑ گیا تھا کوئی مر نہیں گیا تھا میں
یہ اور بات کہ میں نامراد لوٹ آیا
مگر قطار میں لگ کر نہیں گیا تھا میں
سبھی نے دیکھا مجھے اجنبی نگاہوں سے
کہاں گیا تھا، اگر گھر نہیں گیا تھا میں
ہوا ضرور تھا اوجھل نگاہ سے، لیکن
گئے ہوؤں کے برابر نہیں گیا تھا میں
پرائے کرب کی تحویل میں دیا گیا تھا
خوشی سے آگ کے اندر نہیں گیا تھا میں
مِرے خلا پہ زمانوں کی گرد صرف ہوئی
پلک جھپکتے ہوئے بھر نہیں گیا تھا میں

اظہر فراغ

No comments:

Post a Comment