Tuesday 8 October 2019

سامنے اس کے کبھی اس کی ستائش نہیں کی

سامنے اُس کے کبھی اُس کی ستائش نہیں کی
دل نے چاہا بھی اگر، ہونٹوں نے جُنبش نہیں کی
اہلِ محفل پہ کب احوال کھلا ہے اپنا
ہم بھی خاموش رہے اُس نے بھی پُرسش نہیں کی
جس قدر اس سے تعلق تھا چلا جاتا ہے
اس کا کیا رنج کہ جس کی کبھی خواہش نہیں کی
یہ بھی کیا کم ہے کہ دونوں کا بھرم قائم ہے
اس نے بخشش نہیں کی ہم نے گزارش نہیں کی
اک تو ہم کو ادب آداب نے پیاسا رکھا
اس پہ محفل میں صراحی نے بھی گردش نہیں کی
ہم کہ دکھ اوڑھ کے خلوت میں پڑے رہتے ہیں
ہم نے بازار میں زخموں کی نمائش نہیں کی
اے مِرے ابرِ کرم! دیکھ یہ ویرانۂ جاں
کیا کسی دشت پہ تُو نے کبھی بارش نہیں کی
کٹ مَرے اپنے قبیلے کی حفاظت کے لیے
مقتلِ شہر میں ٹھہرے رہے جُنبش نہیں کی
وہ ہمیں بھول گیا ہو تو عجب کیا ہے فرازؔ
ہم نے بھی میل ملاقات کی کوشش نہیں کی

احمد فراز

No comments:

Post a Comment