تنگئ رزق سے ہلکان رکھا جائے گا کیا
دو گھروں کا مجھے مہمان رکھا جائے گا کیا
تجھے کھو کر تو تِری فکر بہت جائز ہے
تجھے پا کر بھی تِرا دھیان رکھا جائے گا کیا
کس بھروسے پہ اذیت کا سفر جاری ہے
درد کا شجرہ دکھانے کے لیے مقتل میں
ساتھ خنجر کے نمکدان رکھا جائے گا کیا
مان بھی لے کہ تجھے میں نے بہت چاہا ہے
دوست سر پر مِرے قرآن رکھا جائے گا کیا
چل تیرا مان رکھا میں نے، تقاضہ چھوڑا
چپ رہوں گا تو مِرا مان رکھا جائے گا کیا
خوف کے زیرِ اثر تازه ہوا آئے گی
اب دریچے پہ بھی دربان رکھا جائے گا کیا
اظہر فراغ
No comments:
Post a Comment