Monday, 7 October 2019

تنگی رزق سے ہلکان رکھا جائے گا کیا

تنگئ رزق سے ہلکان رکھا جائے گا کیا
دو گھروں کا مجھے مہمان رکھا جائے گا کیا
تجھے کھو کر تو تِری فکر بہت جائز ہے
تجھے پا کر بھی تِرا دھیان رکھا جائے گا کیا
کس بھروسے پہ اذیت کا سفر جاری ہے
دوسرا مرحلہ آسان رکھا جائے گا کیا
درد کا شجرہ دکھانے کے لیے مقتل میں
ساتھ خنجر کے نمکدان رکھا جائے گا کیا
مان بھی لے کہ تجھے میں نے بہت چاہا ہے
دوست سر پر مِرے قرآن رکھا جائے گا کیا
چل تیرا مان رکھا میں نے، تقاضہ چھوڑا
چپ رہوں گا تو مِرا مان رکھا جائے گا کیا
خوف کے زیرِ اثر تازه ہوا آئے گی
اب دریچے پہ بھی دربان رکھا جائے گا کیا

اظہر فراغ

No comments:

Post a Comment