Thursday 3 October 2019

خوف کے موسم میں لکھی گئی ایک نظم

خوف کے موسم میں لکھی گئی ایک نظم

وہ طائر جو کبھی اپنے پر و بال آزمانا چاہتے تھے
ہواؤں کے خد و خال آزمانا چاہتے تھے
آشیانوں کی طرف جاتے ہوۓ ڈرنے لگے ہیں
کون جانے کون سا صیاد کیسی وضع کے جال آزمانا چاہتا ہو
کون سی شاخوں پہ کیسے گل کھلانا چاہتا ہو

شکاری اپنے باطن کی طرح اندھے شکاری
حُرمتوں کے موسموں سے نابلد ہیں
اور نشانے مستند ہیں
جگمگاتی جاگتی شاخوں کو بے آواز رکھنا چاہتے ہیں
ستم گاری کے سب در باز رکھنا چاہتے ہیں
خداوند! تجھے سہمے ہوۓ باغوں کی سوگند
صداؤں کے ثمر کی منتظر شاخوں کی سوگند
اڑانوں کے لیے پر تولنے والوں پر ایک سایہ تحفظ کی ضمانت دینے والا
کوئی موسم بشارت دینے والا

افتخار عارف

No comments:

Post a Comment