رات! کچھ دیر ٹھہر
اور ذرا بڑھنے دے تاریکئ بے نیلِ مرام
اور چھپنے دے لگے زخم تمام
روح کے شہر میں کچھ ایسا اندھیرا کر دے
ایک اک نقش کا مٹ جائے وجود
نہ کوئی یاد رہے اور نہ کوئی جذبۂ دل
آرزو ہو نہ کسی شخص کے لوٹ آنے کی آس
عمر بھر کوئی پرایا نہ ہی اپنا دیکھیں
ایک بس ہم ہوں سرِ ساحلِ جاں
اور جس رنگ کا چاہیں وہی سپنا دیکھیں
رات! کچھ دیر ٹھہر اور کچھ دیر ٹھہر
فرحت عباس شاہ
No comments:
Post a Comment