یہ کون بزم سے اٹھا کہ بزم ہی نہ رہی
دلوں میں آگ، چراغوں میں روشنی نہ رہی
بنائی عاقبت اپنی تو پاک بازوں نے
یہ اور بات ہے، دنیا رہی، رہی، نہ رہی
نہ پوچھ رک گئیں کیوں گردشیں زمانے کی
وہ تند و تیز ہوائیں، وہ تپتی دھوپ کہاں
ہمارے بعد فلک کی سِتم گری نہ رہی
درست، فیصلۂ ترکِ دوستی ان کا
بجا کہ اب کوئی صورت نِباہ کی نہ رہی
بنا تھا جس پہ نشیمن، گِری تھی برق جہاں
بہار آئی ہے کیوں، جب وہ شاخ بھی نہ رہی
چلی وہ یاس کی آندھی ضؔیا شبِ فُرقت
چراغ بجھ گئے، تاروں میں روشنی نہ رہی
ضیا فتح آبادی
No comments:
Post a Comment