حالِ دل ان سے کسی عنواں بیاں کر دیکھتے
اپنی رُوداد محبت، داستاں کر دیکھتے
دیکھ لیتے برقِ سوزاں میں ہے کتنا حوصلہ
ہم بھی شاخ گُل پہ تعمیر آشیاں کر دیکھتے
ضبط اگر دیتا اجازت ہم کو اے پاسِ وفا
کب ہمیں اتنی خبر تھی ان کا مسکن ہے کہاں
سر کو محوِ سجدۂ ہر آستاں کر دیکھتے
تھا مآل آغاز سے روشن اگر اہلِ وفا
ساتھ اپنے دوست کا بھی امتحاں کر دیکھتے
پانی پانی سنگدل خود ہی نہ ہو جاتا تو ہم
سییلِ اشک آنکھوں سے شامِ غم رواں کر دیکھتے
ضبطِ گِریہ، دعوتِ مشقِ سِتم، پھر اے ضؔیا
کیوں نہ وہ آخر ہمارا امتحاں کر دیکھتے
ضیا فتح آبادی
No comments:
Post a Comment