تم جو روٹھے تو قیامت نے کہانی کر دی
لازوالی مِری اِک آن میں فانی کر دی
راز کا رشتہ بجُز درد نہیں، محرمِ راز
تُو نے ہر ہر رگِ بے تاب سیانی کر دی
کتنا روشن تھا وہ مَن موہنا لہجہ تیرا
وقت کی دُھول نے تصویر پرانی کر دی
حُسن کُندن ہے تِرا اور نکھر جائے گا
جب جوانی کا حسیں دور گزر جائے گا
تُو مِرے دل سے دبے پاؤں نکل جائے تو کیا
میرے ہاتھوں کی لکیروں سے کدھر جائے گا
نام لکھتا ہے مِرا اپنی ہتھیلی پہ، مگر
میں نے پوچھا تو کھڑے پاؤں مُکر جائے گا
چلو تو آج سے الفت کا باب ختم ہوا
تمہارے ساتھ ہمارا حساب ختم ہوا
سوال اور جواب ایک ساتھ جاری تھے
سوال ختم ہوا جب جواب ختم ہوا
نظر نہیں تھی ستمگر نہ تابِ نظارہ
حجاب باقی رہا جب حجاب ختم ہوا
وہ میرے واسطے آئے، یہ ہو نہیں سکتا
وفا کا سر نہ جھکائے، یہ ہو نہیں سکتا
وہ خود بھی درد کا مارا ہے جانتا ہوں مگر
وہ دل کی بات بتائے، یہ ہو نہیں سکتا
کہیں کبھی کوئی وعدہ وفا نہ ہو جائے
اسے یہ غم نہ ستائے، یہ ہو نہیں سکتا
اب دہر میں بے یار و مددگار نہیں ہم
پہلے کی طرح بے کس و لاچار نہیں ہم
آتا ہے ہمیں اپنے مقدر کو بنانا
تقدیر پہ شاکر پسِ دیوار نہیں ہم
تم ظلم کئے جاؤ، خدا ہی رہو اپنے
ساتھی ہیں برابر کے، پرستار نہیں ہم
بہت میں نے سنی آپ کی تقریر مولانا
مگر بدلی نہیں اب تک مِری تقدیر مولانا
خدارا! شکر کی تلقین اپنے پاس ہی رکھیں
یہ لگتی ہے مِرے سینے پہ بن کر تیر مولانا
نہیں میں بول سکتا جھوٹ اس درجہ ڈھٹائی سے
یہی ہے جرم میرا، اور یہی تقصیر مولانا
امیروں کی حمایت میں دیا تم نے سدا فتویٰ
نہیں ہے دِین فروشوں ہم پہ یہ کوئی نیا فتویٰ
سفینہ اہلِ زر کا ڈوبنے والا ہے، شب زادو
کوئی فتویٰ بچا نہیں سکتا جاگیرداروں کو
بہت خوں پی چکے ہو اپنا بھی انجام اب دیکھو
نہ گفتگو سے نہ وہ شاعری سے جائے گا
عصا اٹھاؤ کہ فرعون اسی سے جائے گا
اگر ہے فکرِ گریباں تو گھر میں جا بیٹھو
یہ وہ عذاب ہے، دیوانگی سے جائے گا
بجھے چراغ، لٹیں عصمتیں، چمن اجڑا
یہ رنج جس نے دئیے، کب خوشی سے جائے گا
یہ جو تم
اپنے ہی گھر کو آگ لگا کر
تھوڑی سی حق تلفی کو بنیاد بنا کر
گلشن گلشن، مکتب مکتب، خون بہا کر
بن آئی“ میں اپنی جان گنواتے ہو”
کس دل کی تسکین کا ساماں کرتے ہو
میں نہیں تھا ٹھیک یا تیرا رویہ تھا غلط
وقت کی گاڑی کا کوئی ایک پہیا تھا غلط
عشقِ بے ترتیب میں بے تال ڈالی تھی دھمال
کم سمجھ سمجھا کہ میرا تھیا تھیا تھا غلط
چاہیے تھا بولتا تجھ سے میں تیشے کی زبان
سنگ تھا تو، تجھ پہ اسلوبِ رقیہ تھا غلط
پت جھڑ سے گِلہ ہے، نہ شکایت ہوا سے ہے
پھولوں کو کچھ عجیب محبت ہوا سے ہے
سرشارئ شگفتگئ گُل کو ہے کیا خبر
منسُوب ایک اور حکایت ہوا سے ہے
رکھا ہے آندھیوں نے ہی، ہم کو کشِیدہ سر
ہم وہ چراغ ہیں جنہیں نِسبت ہوا سے ہے
وہ تو خوشبو ہے، ہواؤں میں بکھر جائے گا
مسئلہ پھول کا ہے، پھول کدھر جائے گا
ہم تو سمجھے تھے کہ اِک زخم ہے، بھر جائے گا
کیا خبر تھی کہ رگِ جاں میں اتر جائے گا
وہ ہواؤں کی طرح خانہ بجاں پھرتا ہے
ایک جھونکا ہے جو آئے گا، گزر جائے گا
مِری اونچ نیچ سے آشنا نہیں ہو سکی
وہ حسیں ڈگر مِرا راستہ نہیں ہو سکی
لب و حرف سے مِرا اعتبار ہی اٹھ گیا
تِرے بعد مجھ سے کوئی دعا نہیں ہو سکی
مِرا اشک چشمۂ چشم میں کہیں گُھل گیا
کوئی روشنی تھی مگر دِیا نہیں ہو سکی
گِہ آئینہ ہوا،۔ گِہ دیدۂ پُر آب گھٹا
کبھی بڑھا کبھی دریائے اضطراب گھٹا
عزیز آئے نہ رونے کو میری تُربت پر
بہا کے اشک ہوئی داخلِ ثواب گھٹا
تمہاری زُلف نہ گردابِ ناف تک پہنچی
ہوئی نہ چشمۂ حیواں سے فیض یاب گھٹا
اے صبا جذب پہ جس دم دلِ ناشاد آیا
اپنی آغوش میں اڑ کر وہ پری زاد آیا
چشمِ موسیٰ ہمہ تن بن گیا میں حیرت سے
دیکھا اک بت کا وہ عالم کہ خدا یاد آیا
عاشقوں سے نہ رہا کوئی زمانہ خالی
کبھی وامق، کبھی مجنوں، کبھی فرہاد آیا
ہوائے یار میں کیا دل کو اضطراب رہا
چکور چاند کی خاطر بہت خراب رہا
ہمیشہ کوششِ دنیا میں اضطراب رہا
بہت خراب دلِ خانماں خراب رہا
نہ برشگال میں جب تک شراب پلوا لی
بلا کی طرح سے سر پر مِرے سحاب رہا
لفظ تو بانجھ ہیں جذبوں کی قدر کیا جانیں
زندگی ہار چکی ہو وہ نظرکیا جانیں
اپنے معصوم گلابوں سے حسیں بچوں کی
ایک کھوئی ہوئی مسکان پہ کچھ لکھنا ہے
ان کی بے جان نگاہوں پہ مجھے کہنا ہے
لفظ تو بانجھ ہیں قرطاس کے آئینے میں
مہک رہے ہیں جو یہ پھول لب بہ لب مِری جاں
جو تم نہیں ہو تو پھر کون ہے سبب مِری جاں
اداسیوں بھری شامیں جہاں سے آتی ہیں
وہیں سے آئی ہے یہ ساعتِ طرب مِری جاں
مِری کتابیں، مِری خوشبوئیں، مِری آنکھیں
تمہارے ہجر میں جاگے ہیں سب کے سب مِری جاں
مرتی ہوئی تہذیب بھی اور اس کے نشاں بھی
صدیوں سے یہاں ہم بھی ہیں یہ خستہ مکاں بھی
انجان زمانوں کی روایت بھی سفر میں
ہمراہ مِرے ہے خس و خاشاک و جہاں بھی
اس ہجر سے کیا جان چھڑاؤں کہ یہ ڈر ہے
آسیب تو جاتے ہوئے چھوڑے گا نشاں بھی
مجھے یقیں ہے عدو کی مچان ٹوٹے گی
مچان بچ بھی گئی تو کمان ٹوٹے گی
کہا نہیں تھا، کہ آخر کو تھک کے گِرنا ہے
کہا نہیں تھا کہ اونچی اڑان ٹوٹے گی
یہ موجِ نغمۂ ہستی اٹھے کہ نیچی رہے
مگر یہ طے ہے کہ آخر یہ تان ٹوٹے گی
دوست ہوتے ہیں، ہر اک یار نہیں ہوتا یار
دو گھڑی بیٹھو مرے پاس، کہو کیسی ہو
دو گھڑی بیٹھنے سے پیار نہیں ہوتا یار
یار! یہ ہجر کا غم، اس سے تو موت اچھی ہے
جاں سے یوں ہی کوئی بے زار نہیں ہوتا یار
سندر، کومل سپنوں کی بارات گزر گئی جاناں
دھوپ آنکھوں تک آ پہنچی ہے رات گزر گئی جاناں
بھور سمے تک جس نے ہمیں باہم الجھائے رکھا
وہ البیلی ریشم ایسی بات گزر گئی جاناں
سدا کی دیکھی رات ہمیں اس بار ملی تو چپکے سے
خالی ہاتھ پہ رکھ کے کیا سوغات گزر گئی جاناں
اس بھرے شہر میں میری طرح رسوا ہوتا
تجھ پہ حادثۂ شوق جو گزرا ہوتا
تُو نے ہر چند زباں پر تو بٹھائے پہرے
بات جب تھی کہ مِری سوچ کو بدلا ہوتا
رکھ لیا غم بھی تِرا بارِ امانت کی طرح
کون اس شہر کے بازار میں رسوا ہوتا
یہ عشق پیچاں کے پھول پتے جو فرش پر یوں بکھر رہے ہیں
یہ مجھ کو تکلیف دے رہے ہیں، یہ مجھ کو غمگین کر رہے ہیں
انہیں یہاں سے اٹھا کے اک بار پھر اسی بیل پر لگا دو
وگرنہ، مجھ کو بھی ان کے مانند خواب کی گود میں سلا دو
خزاں زدہ اک شجر ہے، اس پر ضیائے مہتاب کھیلتی ہے
اور اس کی بے رنگ ٹہنیوں کو وہ اپنے طوفاں میں ریلتی ہے
آنکھوں میں جو بات ہو گئی ہے
اک شرحِ حیات ہو گئی ہے
جب دل کی وفات ہو گئی ہے
ہر چیز کی رات ہو گئی ہے
غم سے چھٹ کر یہ غم ہے مجھ کو
کیوں غم سے نجات ہو گئی ہے
رس میں ڈوبا ہوا لہراتا بدن کیا کہنا
کروٹیں لیتی ہوئی صبحِ چمن کیا کہنا
باغِ جنت میں گھٹا جیسے برس کے کھل جائے
سوندھی سوندھی تیری خوشبوئے بدن کیا کہنا
جیسے لہرائے کوئی شعلہ کمر کی لچک
سر بہ سر آتشِ سیال بدن کیا کہنا
یہ ہے مے کدہ یہاں رِند ہيں یہاں سب کا ساقی امام ہے
یہ حرم نہیں ہے اے شيخ جی! یہاں پارسائی حرام ہے
جو ذرا سی پی کے بہک گیا اسے مے کدے سے نکال دو
یہاں تنگ نظر کا گزر نہیں، یہاں اہلِ ظرف کا کام ہے
کوئی مست ہے کوئی تشنہ لب تو کسی کے ہاتھ میں جام ہے
مگر اس پہ کوئی کرے بھی کیا یہ تو مے کدے کا نظام ہے
کیا چیز تھی کیا چیز تھی ظالم کی نظر بھی
اف کر کے وہیں بیٹھ گیا دردِ جگر بھی
کیا دیکھیں گے ہم جلوۂ محبوب کہ ہم سے
دیکھی نہ گئی دیکھنے والے کی نظر بھی
واعظ! نہ ڈرا مجھ کو قیامت کی سحر سے
دیکھی ہے ان آنکھوں نے قیامت کی سحر بھی
اب مِرے دوسرے بازو پہ وہ شمشیر ہے جو
اس سے پہلے بھی مرا نصف بدن کاٹ چکی
اسی بندوق کی نالی ہے مِری سمت کہ جو
اس سے پہلے مِری شہ رگ کا لہو چاٹ چکی
پھر وہی آگ در آئی ہے مری گلیوں میں
پھر مِرے شہر میں بارُود کی بُو پھیلی ہے
آدمی، آدمی سے ملتا ہے
دل مگر کم کسی سے ملتا ہے
بھول جاتا ہوں میں ستم اس کے
وہ کچھ اس سادگی سے ملتا ہے
مل کے بھی جو کبھی نہیں ملتا
ٹوٹ کر دل اسی سے ملتا ہے
یہ تِرا جمالِ کاکُل یہ شباب کا زمانہ
دلِ دشمناں سلامت، دلِ دوستاں نشانہ
میری زندگی تو گزری تِرے ہجر کے سہارے
میری موت کو بھی پیارے کوئی چاہیئے بہانہ
میں وہ صاف ہی نہ کہہ دوں جو ہے فرق تجھ میں مجھ میں
تِرا درد ، دردِ تنہا، مِرا غم ، غمِ زمانہ
مِرے جنوں کا نتیجہ ضرور نکلے گا
اسی سیاہ سمندر سے نور نکلے گا
گِرا دیا ہے تو ساحل پہ انتظار نہ کر
اگر وہ ڈوب گیا ہے تو دور نکلے گا
اسی کا شہر، وہی مدعی، وہی منصف
ہمیں یقین تھا، ہمارا قصور نکلے گا
آج کی رات بھی گزری ہے مِری کل کی طرح
ہاتھ آئے نہ ستارے تِرے آنچل کی طرح
حادثہ کوئی تو گزرا ہے یقیناً یارو
ایک سناٹا ہے مجھ میں کسی مقتل کی طرح
پھر نہ نکلا کوئی گھر سے کہ ہوا پھرتی تھی
سنگ ہاتھوں میں اٹھائے کسی پاگل کی طرح
جنونِ شوق اب بھی کم نہیں ہے
مگر یہ آج بھی برہم نہیں ہے
بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا
تِری زُلفوں کا پیچ وخم نہیں ہے
بہت کچھ اوربھی ہے اس جہاں میں
یہ دنیا محض غم ہی غم نہیں ہے
مجھے شکوہ نہیں دنیا کی اُن زہرہ جبینوں سے
ہوئی جن سے نہ میرے شوقِ رُسوا کی پزیرائی
مجھے شکوہ نہیں اُن پاک باطن نُکتہ چینوں سے
لبِ معجز نُما نے جن کے، مجھ پر آگ برسائی
مجھے شکوہ نہیں تہذیب کے اُن پاسبانوں سے
نہ لینے دی جنہوں نے فطرتِ شاعر کو انگڑائی
طفلی میں آرزو تھی کسی دل میں ہم بھی ہوں
اک روز سوز و ساز کی محفل میں ہم بھی ہوں
دل ہو اسیر گیسوئے عنبر سرشت میں
الجھے انہیں حسین سلاسل میں ہم بھی ہوں
چھیڑا ہے ساز حضرتِ سعدی نے جس جگہ
اس بوستاں کے شوخ عنادل میں ہم بھی ہوں
میں نے مانا کہ تم اک پیکرِ رعنائی ہو
چمنِ دہر میں روحِ چمن آرائی ہو
طلعتِ مہر ہو، فردوس کی برنائی ہو
بنتِ مہتاب ہو، گردُوں سے اتر آئی ہو
مجھ سے ملنے میں اب اندیشۂ رسوائی ہے
میں نے خود اپنے کئے کی یہ سزا پائی ہے
تجھ میں اور مجھ میں وہ اب رازو نیاز آئے کہاں
اب میسر دھوپ میں ہیں زلف کے سائے کہاں
جانے والے سوچ کر جانا کہ بے حد شوخ ہے
کیا پتہ ہے ایسے دل کا کس پہ آ جائے کہاں
تیرے میرے گھر میں جو دیوار حائل ہو گئی
تیشۂ پُرزور کو مشکل ہے کہ ڈھائے کہاں
مجھے ناشاد کر دے، اے مِرے دل
مِرے استاد! کر دے، اے مِرے دل
لو پھر سے غم مجھے کم پڑ گئے ہیں
یہ لاتعداد کر دے، اے مرے دل
جو تجھ میں خوف بچے دے رہا ہے
وہ بے اولاد کر دے، اے مرے دل
دنیا نہ کرے پیار، کرے پیار، مجھے کیا
جب تم نہ رہے یار، مِرے یار، مجھے کیا
اے تیر نظر! آزما اس دل کی فراخی
اب تُو رہے اِس پار یا اُس پار مجھے کیا
میں زندگی سے کھیل کے نکلا ہوں، پرے ہٹ
اے موت! مجھے چھوڑ، مجھے مار، مجھے کیا
کسی چمن میں رہو تم، بہار بن کے رہو
خدا کرے، کسی دل کا قرار بن کے رہو
ہم اپنے پیار کو دل سے لگا کے جی لیں گے
یہ زہر تم نے دیا ہے، تو ہنس کے پی لیں گے
زمانہ دے ناں تمہیں، بے وفائی کا الزام
زمانے بھر میں وفا کا وقار بن کے رہو
آج اے دل! لب و رخسار کی باتیں ہی سہی
وقت کٹ جائے گا کچھ پیار کی باتیں ہی سہی
یوں تو کٹتی ہی رہے گی غمِ دوراں میں حیات
آج کی رات غمِ یار کی باتیں ہی سہی
زندہ رہنے کی کبھی تو کوئی صورت نکلے
عشرتِ عالمِ دیدار کی باتیں ہی سہی
اِک دِلربا سے پیار کا قصّہ تمام شُد
اس جیت اور ہار کا قصّہ تمام شُد
تجھ سے وفا کے بدلے میں تنہائیاں ملیں
اے دوست! تیرے یار کا قصّہ تمام شُد
پھولوں کے ارد گرد ہیں کانٹے نکل پڑے
گلرنگ پر نکھار کا قصّہ تمام شُد
کبھی ہم کو رُلا ڈالا، کبھی ہم کو ہنسا ڈالا
خوشی اور غم کا جیون کھیل ہے جس نے تھکا ڈالا
نہیں آئی نظر مجھ کو تمہارے نام کی ریکھا
تو اپنی اس ہتھیلی کی لکیروں کو جلا ڈالا
جلائی شمع الفت کی جو تھی ہر ایک کے دل میں
تعصّب کی ہوا نے آج ہے اس کو بُجھا ڈالا
وقت ہر دہلیز کا جلتا دِیا گُل کر گیا
دَم نکل کر آدمی کی قید سے باہر گیا
عشق کا دعویٰ بہت آسان ہے، لیکن سنو
جس نے دعویٰ عشق کا سچا کیا تو سَر گیا
سوچتا ہوں میں سفر اپنا ادھورا چھوڑ دوں
ایک مدت سے نہیں لوگو! میں اپنے گھر گیا
میٹھے لہجے میں لپٹی ہوئی نفرتیں
اتفاقاً نہیں یوں تجھے ہیں ملی
تجھ سے ناراض ہوتے ہیں سب لوگ کیوں
ہے کوئی تو وجہ، کوئی تو ہے کمی
تُو مہذّب ہے، کہتا ہے سب سے یہی
اور برداشت کی تجھ میں عادت نہیں
دل کے اندر درد آنکھوں میں نمی بن جائیے
اس طرح ملیے کہ جزوِ زندگی بن جائیے
اک پتنگے نے یہ اپنے رقص کے آخر میں کہا
روشنی کے ساتھ رہیے، روشنی بن جائیے
جس طرح دریا بجھا سکتا نہیں صحرا کی پیاس
اپنے اندر ایک ایسی تشنگی بن جائیے
جا کے پھر لوٹ جو آئے، وہ زمانہ کیسا
تیری آنکھوں نے یہ چھیڑا ہے فسانہ کیسا
آنکھ سرشارِ تمنا ہے، تُو وعدہ کر لے
چال کہتی ہے کہ اب لوٹ کے آنا کیسا
مجھ سے کہتا ہے کہ سائے کی طرح ساتھ ہیں ہم
یوں نہ ملنے کا نکالا ہے بہانہ کیسا
کیا جانیے ہر آن بدلتی ہوئی دنیا
کب دل سے کوئی نقش مٹانے چلی آئے
در کھول کے اک تازہ تحیّر کی خبر کا
چپکے سے کسی غم کے بہانے چلی آئے
کہتے ہیں کہ اب بھی تری پھیلی ہوئی باہیں
اک گوشۂ تنہائی میں سِمٹی ہوئیں اب تک
زنجیرِ مہ و سال میں لِپٹی ہوئیں اب تک
نکل کے حلقۂ شام و سحر سے جائیں کہیں
زمیں کے ساتھ نہ مل جائیں یہ خلائیں کہیں
سفر کی رات ہے، پچھلی کہانیاں نہ کہو
رُتوں کے ساتھ پلٹتی ہیں کب ہوائیں کہیں
فضا میں تیرتے رہتے ہیں نقش سے کیا کیا
مجھے تلاش نہ کرتی ہوں یہ بلائیں کہیں
ایک آزار ہوئی جاتی ہے شہرت ہم کو
خود سے مِلنے کی بھی مِلتی نہیں فرصت ہم کو
روشنی کا یہ مسافر ہے رہِ جاں کا نہیں
اپنے سائے سے بھی ہونے لگی وحشت ہم کو
آنکھ اب کس سے تحیّر کا تماشا مانگے
اپنے ہونے پہ بھی ہوتی نہیں حیرت ہم کو
نہ ربط ہے نہ معانی کہیں تو کس سے کہیں
ہم اپنے غم کی کہانی کہیں تو کس سے کہیں
سِلیں ہیں برف کی سینوں میں اب دلوں کی جگہ
یہ سوزِ دردِ نہانی کہیں تو کس سے کہیں
نہیں ہے اہلِ جہاں کو خود اپنے غم سے فراغ
ہم اپنے دل کی گرانی کہیں تو کس سے کہیں
کہیں بے کنار سے رتجگے، کہیں زرنگار سے خواب دے
تِرا کیا اصول ہے زندگی، مجھے کون اس کا حساب دے
جو بِچھا سکوں تِرے واسطے، جو سجا سکیں تِرے راستے
مِری دسترس میں ستارے رکھ، مِری مُٹھیوں کو گلاب دے
یہ جو خواہشوں کا پرند ہے، اسے موسموں سے غرض نہیں
یہ اڑے گا اپنی ہی موج میں، اسے آب دے کہ سراب دے
جو عشق میں نے کفر کی پہچان کر دیا
کافر نے اس کو بھی مِرا ایمان کر دیا
حیرت نہیں ہوئی جو کسی عکس پر ہمیں
اس نے تو آئینے کا بھی حیران کر دیا
کچھ علم ہے کہ تم نے تو گیسو بکھیر کر
شیرازۂ جہاں کو پریشان کر دیا
اک لَو تھی مِرے خون میں تحلیل تو یہ تھی
اک برق سی رَو تھی میری قندیل تو یہ تھی
تیرے رُخِ خاموش سے میری رگِ جاں تک
جو کام کیا آنکھ نے ترسیل تو یہ تھی
بننا تھا تو بنتا نہ فرشتہ نہ خدا میں
انسان ہی بنتا، مِری تکمیل تو یہ تھی
کریں ہجرت تو خاکِ شہر بھی جزدان میں رکھ لیں
چلیں گھر سے تو گھر کی یاد بھی سامان میں رکھ لیں
ہمارا کیا کہ گل کو نوچ کر تکریم بھی دے دیں
صحیفے میں سجا دیں یا کسی گلدان میں رکھ لیں
زیانِ دل ہی اس بازار میں سُودِ محبت ہے
یہاں ہے فائدہ خود کو اگر نقصان میں رکھ لیں
میں جو تنہا رہِ طلب میں چلا
ایک سایہ مِرے عقب میں چلا
صبح کے قافلوں سے نبھ نہ سکی
میں اکیلا سوادِ شب میں چلا
جب گھنے جنگلوں کی صف آئی
ایک تارہ مِرے عقب میں چلا
يہ کیسا گيت ہے اے نَے نوازِ عالم ہُو
کہ نَے سے راگ کے بدلے ٹپک رہا ہے لہُو
بہارِ صبح کے نغمہ گروں کو کيا معلوم
گزر گيا گُل و غنچہ پہ کيا عذابِ نمُو
اگر نقاب الٹ دے تو کيا قيامت ہو
وہ جانِ گُل کہ کبھی رنگ ہے کبھی خُوشبُو
مئے نشاط انڈيلی تھی ميں نے ساغر ميں
پہلے تو اپنی ذات سے منہا کِیا مجھے
پھر اس نے سارے شہر میں تنہا کِیا مجھے
حیرت نے میری مجھ کو کیا آئینہ مثال
اور آئینہ بھی ٹوٹنے والا کِیا مجھے
ہاتھوں کے ساتھ ہی میری مٹی ہوئی خراب
کُوزہ گری کے شوق نے رُسوا کِیا مجھے
بہتے ہوئے دریا کی روانی کو سمجھتا
لگتی جو تجھے پیاس تو پانی کو سمجھتا
کرنا تھا تجھے عشق تو پھر عشق سے پہلے
بہتر تھا محبت کے معانی کو سمجھتا
دیتا نہ کبھی ٹوٹنے پندارِ محبت
اے کاش تُو خود میری کہانی کو سمجھتا
یہ جو گِرتی ہوئی دیوار سنبھالے ہوئے ہیں
خلق کہتی ہے اسی گھر کے نکالے ہوئے ہیں
شہرِ جاں بخش ہمیں تُو تو حقارت سے نہ دیکھ
جیسے بھی ہیں تِری آغوش کے پالے ہوئے ہیں
کوچہ گردی کی ہوس ہے، نہ تمنا، نہ دماغ
پھر یہ کیا ہے کہ جو اب پاؤں میں چھالے ہوئے ہیں
ہجر کی دھوپ میں چھاؤں جیسی باتیں کرتے ہیں
آنسو بھی تو ماؤں جیسی باتیں کرتے ہیں
رستہ دیکھنے والی آنکھوں کے انہونے خواب
پیاس میں بھی دریاؤں جیسی باتیں کرتے ہیں
خود کو بکھرتے دیکھتے ہیں کچھ کر نہیں پاتے لیکن
پھر بھی لوگ خداؤں جیسی باتیں کرتے ہیں
کوئی مُژدہ نہ بشارت نہ دعا چاہتی ہے
روز اک تازہ خبر، خلقِ خدا چاہتی ہے
موجِ خوں سر سے گزرنی تھی سو وہ بھی گزری
اور کيا کوچۂ قاتل کی ہوا چاہتی ہے
شہرِ بے مہر میں لب بستہ غلاموں کی قطار
نئے آئینِ اسیری کی بِنا چاہتی ہے
حریمِ لفظ میں کس درجہ بے ادب نکلا
جسے نجیب سمجھتے تھے، کم نسب نکلا
سپاہِ شام کے نیزے پہ آفتاب کا سر
کس اہتمام سے پروردگارِ شب نکلا
ہماری گرمئ گفتار بھی رہی بے سُود
کسی کی چپ کا بھی مطلب عجب عجب نکلا
تیرے سود و زیاں کےٹھیلوں سے
ہم کو کیا کام ان رکھیلوں سے
عشق میں جیت ہر اناڑی کی
عقل ڈرتی ہے ایسے کھیلوں سے
سوکھ کر ہو گیا ہوں کانٹا سا
تیری یادوں کی زرد بیلوں سے
کچھ ایسے تیرا تصور ہے دل کی بستی میں
رہی نہ تیری جگہ بھی ہماری ہستی میں
چمن کے شوق میں محوِ سفر ہوں شعلوں پر
کھلیں گے پھول اسی آبلہ پرستی میں
یہ کفر و شرک ہے ایسا خلل دماغوں کا
خرد کو دفن کرے ظلمتوں کی پستی میں
لفظوں کی یہ چترنگ، غزل گوئی نہیں ہے
اک غم کا فسانہ ہے، سخن شوئی نہیں ہے
معکوس ہزاروں ہیں سرِ آئینۂ ذات
حیراں ہوں پسِ آئینہ تو کوئی نہیں ہے
جب سے چلا ہے سلسلۂ آمد و آورد
حیرت سے مِری آنکھ کبھی سوئی نہیں ہے
یہ رعایتاں کسی کام کی نہیں چارہ گر
یہ سخاوتاں کسی کام کی نہیں چارہ گر
تیری مصلحت میرے حوصلے کرے پست تر
یہ شرافتاں کسی کام کی نہیں چارہ گر
تیرے دل میں ایک صنم کدہ بھی تو ہے کہیں
یہ عبادتاں کسی کام کی نہیں چارہ گر
پھر مت کہنا کہ بتایا نہیں، کوئی سننے والا ہے کہ نہیں
جاتا ہوں ميں کوئے ملامت کو، کوئی روکنے والا ہے کہ نہیں
مِرے باہر آئینہ خانے میں مِرے سارے عکس سلامت ہیں
مِرے اندر کیا کچھ ٹوٹ گیا، کوئی دیکھنے والا ہے کہ نہیں
اسی رسم و رواج کے ریلے میں اسی کارِ جہاں کے میلے میں
کھویا ہوا ہے اک شہزادہ، کوئی ڈھونڈنے والا ہے کہ نہیں
رات کی جلتی تنہائی میں
اندھیاروں کے جال بُنے تھے
دیواروں پہ تاریکی کی گرد جمی تھی
خوشبو کا احساس ہوا، میں ٹوٹ رہا تھا
دروازے بانہیں پھیلائے اونگھ رہے تھے
دور سمندر پار ہوائیں بادلوں سے باتیں کرتی تھیں
جیسے کہ رات بِیت گئی خواب کے بغیر
میری یہ پہلی عید تھی، احباب کے بغیر
یوں بے دلی کے ہاتھ سے خالی پڑا ہے دل
جیسے کوئی مکان ہو اسباب کے بغیر
اک آدھ دوست دشمنوں جیسا بھی چاہیئے
دریا سراب لگتا ہے گرداب کے بغیر
بے رخی کا اوروں کی ہم حساب کیا کرتے
اپنے آپ سے برتے اجتناب کیا کرتے
مسئلہ تو اتنا تھا عمر بھر کی دشواری
زندگی تھی اور اس کا سدِ باب کیا کرتے
جب محاسبہ اپنے شوق کا نہ کر پائے
پھر کسی کی آنکھوں کا احتساب کیا کرتے
کس رخ سے خوں گِرا تھا مِرے تشنہ لب تِرا
صحرا میں پڑ گیا تھا بھنور کربلا کے بعد
خیموں کی آگ آنکھ میں بھرتی ہے یوں دھواں
پڑتی ہے کربلا پہ نظر کربلا کے بعد
صبحِ وطن تھی شامِ غریباں کے اس طرف
باندھا گیا تھا رختِ سفر کربلا کے بعد
کوئی تھا چاند، یا پھر چاندنی بردار دیکھا ہے
نظر کو سامنے جس کے بہت لاچار دیکھا ہے
کبھی جو سیر کی ، اپنے ہی اندر ڈوب کر میں نے
تھکن سے چور اک سایہ پسِ دیوار دیکھا ہے
مسلسل جھوجھتا رہتا ہوں میں امواجِ دریا سے
ہمیشہ خود کو اِس جانب اسے اُس پار دیکھا ہے
نرغۂ غیر میں تلوار اٹھا لی اس نے
میرا سر مانگ لیا بن کے سوالی اس نے
آخرش ترکِ تعلق کا بھرم رکھنے کو
ایک دیوار پسِ دار بنا لی اس نے
عازمِ راہِ محبت کی تواضع کرنے
ساغرِ جور کی پندار اٹھا لی اس نے
وقت کے پاس کہاں سارے حوالے ہوں گے
زیبِ قرطاس فقط یاس کے ہالے ہوں گے
کھوجتا کیوں ہے اندھیروں میں تفاہم کے دیے
آ، چراغوں میں لہو ڈال، اجالے ہوں گے
دشت میں جا کے ذرا دیکھ تو آئے کوئی
ذرے ذرے نے مِرے اشک سنبھالے ہوں گے
میرے ہونے سے نہ ہونے کی خبر آتی ہے
ہر نوا لوٹ کے با دیدۂ تر آتی ہے
شعلگی، دستِ کرم اب کے گلوں کا ٹھہری
ہر کلی قصۂ بے داد نظر آتی ہے
خاک میں خاک یہاں رختِ سفر باندھوں گا
ریگِ صحرا ہے اڑی، اور اِدھر آتی ہے
بے چینی کے لمحے، سانسیں پتھر کی
صدیوں جیسے دن ہیں، راتیں پتھر کی
پتھرائی سی آنکھیں، چہرے پتھر کے
ہم نے دیکھیں کتنی شکلیں پتھر کی
گورے ہوں یا کالے، سر پر برسے ہیں
پرکھی ہم نے ساری ذاتیں پتھر کی
پرانے رنگ میں اشکِ غمِ تازہ ملاتا ہوں
در و دیوار پر کچھ عکسِ نادیدہ سجاتا ہوں
مِرے اس شوق سے دریا، کنارے، سب شناسا ہیں
جہاں طوفاں ہو موجوں کا، وہاں لنگر اٹھاتا ہوں
مجھے صحرا نوردی راس آتی جا رہی ہے اب
خراباتِ چمن میں لالہ و سوسن اگاتا ہوں
ہر گھر ميں اک ايسا کونا ہوتا ہے
جہاں کسی نے چھپ کے رونا ہوتا ہے
ہوتی ہے چھوٹی سی چيز رقابت بھی
دو بچوں ميں ايک کھلونا ہوتا ہے
اجرت کے لالچ ميں ہم مزدوروں کو
چوروں کا اسباب بھی ڈھونا ہوتا ہے
داستانیں وہاں نہیں ہوتیں
جہاں آبادیاں نہیں ہوتیں
قید و قدغن نہ ہو تو پھر بھی ہمیں
اتنی آزادیاں نہیں ہوتیں
صبح کی نیند سب کو پیاری ہے
اور چڑیاں کہاں نہیں ہوتیں
کوئی تہمت ہو، مِرے نام چلی آتی ہے
جیسے بازار میں ہر گھر سے گلی آتی ہے
تِری یاد آتی ہے اب کوئی کہانی بن کر
یا کسی نظم کے سانچے میں ڈھلی آتی ہے
اب بھی پہلے کی طرح پیشروِ رنگ و صدا
ایک منہ بند سی بے رنگ کلی آتی ہے
آزار مِرے دل کا دل آزار نہ ہو جائے
جو کرب نہاں ہے وہ نمودار نہ ہو جائے
آواز بھی دیتی ہے کہ اٹھ جاگ مِرے لعل
ڈرتی بھی ہے کہ بچہ کہیں بیدار نہ ہو جائے
جب تک میں پہنچتا ہوں کڑی دھوپ میں چل کر
دیوار کا سایہ، پسِ دیوار نہ ہو جائے
دِیے جلا کے ندی میں بہایا کرتا تھا
فلک کو اپنے ستارے دکھایا کرتا تھا
چہار سمت محبت کے بھیجتا تھا رسول
میں گھر کی چھت پہ کبوتر اڑایا کرتا تھا
مِرے مزاج پہ غربت کی کوئی چھاپ نہ تھی
میں ریت کے بھی محل ہی بنایا کرتا تھا
نامہ گیا کوئی، نہ کوئی نامہ بر گیا
تیری خبر نہ آئی، زمانہ گزر گیا
جنت بھی خوب بھر گئی، دوزخ بھی بھر گیا
جوشِ جنوں بتائے مجھے، میں کدھر گیا
ہنستا ہوں یوں کہ ہجر کی راتیں گزر گئیں
روتا ہوں یوں کہ لطفِ دعائے سحر گیا
شاید جگہ نصیب ہو اس گل کے ہار میں
میں پھول بن کے آؤں گا اب کی بہار میں
خلوت خیالِ یار سے ہے انتظار میں
آئیں فرشتے لے کے اجازت مزار میں
ہم کو تو جاگنا ہے تِرے انتظار میں
آئی ہو جس کو نیند وہ سوئے مزار میں
مصیبت عشق کی تنہا مجھی پر کیا گزرتی ہے
تمہارے حسنِ عالمگیر پر اک خلق مرتی ہے
خبر ملتی نہیں کچھ مجھ کو یارانِ گزشتہ کی
خدا جانے کہاں ہیں، کس طرح ہیں، کیا گزرتی ہے
مِری آنکھوں میں تو اس کا گزر بھی ہو نہیں سکتا
یہ آنکھیں آپ کی ہیں نیند جس میں چین کرتی ہے
ہے عشق میں ہر لحظہ ترقی میرے دل کی
ہر داغ بڑھاتا ہے تجلی مِرے دل کی
کیا اور سے ممکن ہو تسلی مِرے دل کی
جب آپ ہی نے کچھ نہ خبر لی ہو مِرے دل کی
رونا ہے جو فرقت میں یہی دیدۂ تر کا
طوفان میں آ جائے گی کشتی میرے دل کی
جو لذت آشنائے درد و الفت ہے میں وہ دل ہوں
اجل جس کو قیامت تک نہ آئے گی وہ بسمل ہوں
توقع رہتی ہے ہر دم کہ دم لینے کی مہلت ہے
معاذ اللہ! اپنی موت سے کس درجہ غافل ہوں
دیکھایا بے خودی نے آئینہ جب میری ہستی کو
ہوا یہ صاف روشن وہ صنم حق ہے میں باطل ہوں
ہوں میں پروانہ، مگر شمع تو ہو، رات تو ہو
جان دینے کو ہوں موجود کوئی بات تو ہو
دل بھی حاضر، سرِ تسلِیم بھی خم کو موجود
کوئی مرکز ہو، کوئی قبلۂ حاجات تو ہو
دل تو بے چین ہے اظہارِ ارادت کے لیے
کسی جانب سے کچھ اظہارِ کرامات تو ہو
یہ شام کتنی حسین ہے، مگر اداس ہے دل
کوئی سبب بھی نہیں، مگر اداس ہے دل
بہت دنوں پہ میں اپنے گاؤں آیا ہوں
سنا ہے وہ بھی یہیں ہے، مگر اداس ہے دل
پھر اس مکان کی کھڑکی میں چاند اگتا ہے
پھر اس میں کوئی مکیں ہے، مگر اداس ہے دل
نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں، نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
جو کسی کے کام نہ آ سکے، میں وہ ایک مُشتِ غبار ہوں
نہ دوائے دردِ جگر ہوں میں نہ کسی کی میٹھی نظر ہوں میں
نہ اِدھر ہوں میں نہ اُدھر ہوں میں نہ شکیب ہوں نہ قرار ہوں
مِرا رنگ روپ بگڑ گیا، مِرا بخت مجھ سے بچھڑ گیا
جو چمن خزاں سے اجڑ گیا، میں اسی کی فصل بہار ہوں
یہ شکل ہو ہی نہیں سکتی شادمانی کی
اٹھا کے حلف بھی، تم غلط بیانی کی
یہ کام جب نہ ہوا، لڑکھڑاتے لفظوں سے
تو دل کے حال کی اشکوں نے ترجمانی کی
یہیں پہ رک جا سمندر! میں تیرا ساحل ہوں
یہیں تلک ہیں حدیں تیری بے کرانی کی
رفتہ رفتہ، منظرِ شب تاب بھی آ جائیں گے
نیند تو آ جائے پہلے ،خواب بھی آ جائیں گے
کیا پتا تھا، خون کے آنسو رلا دیں گے مجھے
اس کہانی میں کچھ ایسے باب بھی آ جائیں گے
خشک آنکھوں نے تو شاید یہ کبھی سوچا نہ تھا
ایک دن صحراؤں میں سیلاب بھی آ جائیں گے
شام تک پھر رنگ خوابوں کا بکھر جائے گا کیا
رائیگاں ہی، آج کا دن بھی گزر جائے گا کیا
ڈھونڈنا ہے گھپ اندھیرے میں مجھے اک شخص کو
پوچھنا، سورج ذرا مجھ میں اتر جائے گا کیا
مانتا ہوں، گھٹ رہا ہے دم تیرا اس حبس میں
گر یہی جینے کی صورت ہے تو مر جائے گا کیا
روز اک منظر شب طلب کرتی ہے
میری بے خوابی کوئی خواب طلب کرتی ہے
کچھ تو مجبورئ حالات بھی ہوتی ہو گی
ورنہ، کشتی کبھی گرداب طلب کرتی ہے
پہلے تو توڑ دیا، میری انا نے مجھ کو
اور اب مجھ سے وہی تاب طلب کرتی ہے
دیکھنے کا جسے کل رات میں ڈھنگ اور ہی تھا
صبح جب آئی، تو اس چشم کا رنگ اور ہی تھا
شیشۂ جاں کو مِرے اتنی نِدامت سے نہ دیکھ
جس سے ٹوٹا ہے یہ آئینہ، وہ سنگ اور ہی تھا
خلق کی بھیجی ہوئی ساری ملامت، اک سمت
اس کے لہجے میں چھپا تیر و تفنگ اور ہی تھا
رستہ ہی نیا ہے، نہ میں انجان بہت ہوں
پھر کُوئے ملامت میں ہوں، نادان بہت ہوں
اک عمر جسے خواب کی مانند ہی دیکھا
چھونے کو ملا ہے، تو پریشان بہت ہوں
مجھ میں کبھی آہٹ کی طرح سے کوئی آئے
اک بند گلی کی طرح، سنسان بہت ہوں
ان کی کسی ادا پہ جفا کا گماں نہیں
شوخی ہے جو بسلسلۂ امتحاں نہیں
دیکھا نہیں وہ جلوہ جو دیکھا ہوا سا ہے
اس طرح وہ عیاں ہیں کہ گویا عیاں نہیں
نامہربانیوں کا گِلہ تم سے کیا کریں
ہم بھی کچھ اپنے حال پہ اب مہرباں نہیں
عشق نے دل میں جگہ کی تو قضا بھی آئی
درد دنیا میں جب آیا، تو دوا بھی آئی
دل کی ہستی سے، کِیا عشق نے آگاہ مجھ کو
دل جب آیا، تو دھڑکنے کی صدا بھی آئی
صدقے اتریں گے، اسیرانِ قفس چُھوٹے ہیں
بجلیاں لے کے نشیمن پہ گھٹا بھی آئی
بڑی مشکل سے کچھ تسکین کے پہلو نکلتے ہیں
جگر پھٹتا ہے، جب آنکھوں سے دو آنسو نکلتے ہے
ہماری بے کسی یارانِ گلشن! دیکھتے رہنا
کہ ہم کنجِ قفس سے بے پر و بازو نکلتے ہیں
کبھی وہ دن بھی تھے، لب پر ہمارے خندۂ گُل تھا
مگر اب تو ہنسی کے نام سے آنسو نکلتے ہیں
ہمیں تو یوں بھی نہ جلوے تِرے نظر آئے
نہ تھا حجاب، تو آنکھوں میں اشک بھرآئے
ذرا سی دیر میں دنیا کی سیر کر آئے
کہ لے کے تیری خبر تیرے بے خبر آئے
اسیر ہونے کے آثار پھر نظر آئے
قفس سے چھوٹ کر آئے تو بال و پر آئے
وہ نگہ جب مجھے پکارتی تھی
دل کی حیرانیاں ابھارتی تھی
اپنی نادیدہ انگلیوں کے ساتھ
میرے بالوں کو وہ سنوارتی تھی
روز میں اس کو جیت جاتا تھا
اور وہ روز خود کو ہارتی تھی
رنگ اور نور کو آپس میں ملا دیتا تھا
میں کسی وقت میں خوشبو کا پتہ دیتا تھا
جب کوئی میری تگ و تاز نہیں جانتا تھا
اپنی روداد میں ٹیلوں کو سنا دیتا تھا
اک تیقن میں گزرتے تھے شب و روز مِرے
اور کوئی کارِ جنوں تھا جو جِلا دیتا تھا
گلِ شکست لیے کب تلک پھروں گا میں
کبھی تو دستِ طلبگار سے ملوں گا میں
مگر وه خواب جو آئنده تک نہیں جاتا
رہے رہے نہ رہے دیکھتا رہوں گا میں
ابھی وه سلطنتِ ہجر کے نواح میں ہے
وه ایک دن جسے جی بھر کے جی سکوں گا میں
دل اسی سفاک فطرت پر ہے راضی بے بہا
جس نے کی ہر ہر قدم پر زخم سازی بے بہا
ہے مزاج اپنا مزاجِ یار سے باندھا ہوا
اور مزاجِ یار میں ہے بے نیازی بے بہا
آج بھی سفاکیت کا بے بہا رجحان ہے
آج بھی مل جائیں گے دنیا میں نازی بے بہا
دشنام تو ملتے ہیں، دلاسا نہیں ملتا
سر جس پہ ٹکا لیں کوئی کاندھا نہیں ملتا
بھیڑ اتنی ہے بازار میں رستا نہیں ملتا
ڈھونڈھو تو کوئی کام کا بندہ نہیں ملتا
تم حلقۂ اغیار سے باہر نہیں آتے
اور میں بھی کسی غیر سے بے جا نہیں ملتا
نہ ملا کبھی کسی سے اسے دیوتا سمجھ کر
بھلا کیسے پوجتا پھر میں اسے خدا سمجھ کر
میں یہ چاہتا ہوں مجھ سے وہ ملے تو دوست بن کے
نہ بڑا سمجھ کے خود کو، نہ مجھے بڑا سمجھ کر
کوئی ان کو یہ بتا دے مِرے منہ میں بھی زباں ہے
وہ ستم کریں گے کب تک مجھے بے نوا سمجھ کر
کرتا ہے بے کار کی باتیں، کام کی کوئی بات نہیں
غیروں جیسی بات ہے تیری، اپنوں جیسی بات نہیں
جام سبھی کے ہاتھوں میں ہے، ہاتھ ہمارے خالی ہیں
ناانصافی ہونے دینا ساقی! اچھی بات نہیں
محفل میں جس کو بھی دیکھو روٹھا روٹھا لگتا ہے
کڑواہٹ ہے آوازوں میں، کوئی میٹھی بات نہیں
الطاف کی بارش ہے گمراہ شریروں پر
طوفاں ہیں مصائب کے نیکی کے سفیروں پر
جب زیست میں آئے گا، دیکھے گا تعجّب سے
بیٹھا ہوں تِری خاطر الفت کے ذخیروں پر
رہتا ہوں تخیّل میں سائے میں ستاروں کے
لکھی ہے مِری قسمت شبنم کی لکیروں پر
جہاں ہے دعویٰ ترقیوں کا، وہیں تباہی مچی ہوئی ہے
جسے وہ کہتے ہیں فصلِ شیریں وہ فصل ساری گلی ہوئی ہے
نجوم و شمس و بروج و طارق، شہابِ ثاقب، قمر، کواکب
بحمدِ رب، سجدہ ریز ہیں سب کہ بزمِ عالم سجی ہوئی ہے
نہ دل میں فرحت نہ ہی مسرت، نہ کوئی حسرت نہ کوئی رغبت
گھٹن سی کیوں سانس میں نہ ہو گی، ہوا ہر اک سُو رکی ہوئی ہے
بوجھ اتنا ہے کہ خم جسم میں آیا ہوا ہے
میں نے اِک خواب کو کاندھوں پہ اٹھایا ہوا ہے
تُو تو حیران ہے ایسے کہ ابھی دیکھا ہو
میں نے یہ زخم تو پہلے بھی دکھایا ہوا ہے
صبحِ کاذب کی ہوا میں یہ مہک کیسی ہے
ایسا لگتا ہے کوئی جسم نہایا ہوا ہے
ہمراہ سفر میں ہو، سفر میں بھی نہیں ہو
افسوس مِرے دل میں، نہ آنکھوں میں کہیں ہو
سنتے ہیں چمن میں ہو، گلابوں میں، سمن میں
آنکھوں میں جو بس جائے وہی ماہ جبیں ہو
کیا تم میں ہے ایسا جو مجھے پاس لگے ہو
لب ہو، مِری آنکھیں ہو، کہ ابروئے جبیں ہو
”ہم پر تمہاری چاہ کا الزام ہی تو ہے“
الزام ہم پہ صورتِ انعام ہی تو ہے
پیتے ہیں اہلِ غم جو مسلسل یہ رات دن
ساغر میں زندگی کا حسیں جام ہی تو ہے
کوئل کی کُوک میں جو ہے پوشیدہ ایک درد
میرے دلِ شکستہ کا پیغام ہی تو ہے
اک شہرِ رنگ و نور اجڑنے کا دکھ بھی تھا
شاخِ نظر سے خواب کے جھڑنے کا دکھ بھی تھا
ہاتھوں کے آسماں پہ دھنک سی تو کِھل گئی
پر دل میں تتلیوں کو پکڑنے کا دکھ بھی تھا
کچھ تو شکستِ آئینہ، وجہِ ملال تھی
کچھ اپنے خد و خال بگڑنے کا دکھ بھی تھا
دل کی مشکل کبھی آساں نہیں ہونے دیتا
مجھ کو دشمن تہی داماں نہیں ہونےدیتا
میری آنکھوں پہ سدا ہاتھ رہے ہیں اس کے
وہ مِرے زخم نمایاں نہیں ہونے دیتا
دل، گراں بارئ احساس کا بیوپاری ہے
غم کو بازار میں ارزاں نہیں ہونے دیتا
فریاد بھی ہے سوئے ادب اپنے شہر میں
ہم پھر رہے ہیں مُہر بلب، اپنے شہر میں
اب کیا دیارِ غیر میں ڈھونڈیں ہم آشنا
اپنے تو غیر ہو گئے سب اپنے شہر میں
اب امتیازِ دشمنی و دوستی کہاں؟
حالات ہو گئے ہیں عجب اپنے شہر میں
پابندِ گماں کفر ہے تسلیم و رضا بھی
بے زار ہے اس دینِ تذبذب سے خدا بھی
دلدل کی طرح ہوں تو کبھی گرد کی صورت
راس آئی ہے مٹی کو کبھی آب و ہوا بھی
گر روشنی مہتاب کو خورشید نے دی ہے
پرتَو ہے کسی اور کا سورج کی ضیاء بھی
کہا عشق نے کہ میں جبر ہوں، مجھے اختيار نہ کيجئیے
ميں فريب ہوں، مجھے کھائيے، مِرا اعتبار نہ کيجئیے
نہ ميں وقت ہوں نہ ميں بخت ہوں جسے آپ راہ ميں پائيے
اجی جائيے، مجھے ڈھونڈئيے، مِرا انتظار نہ کيجئیے
مجھے راز مان کے جانيے، مجھے بھید جان کے بوجھئیے
مگر اتنا جانتے بوجھتے، مجھے آشکار نہ کيجئیے
اک حسن کی خلقت سے ہر دل ہوا دیوانہ
محفل میں چراغ آیا، گرنے لگا پروانہ
اتنا مِرا قصہ ہے، اتنا مِرا افسانہ
جب تم نہ ملے مجھ کو، میں ہو گیا دیوانہ
سمجھاؤ نہ سمجھے گا، بہلاؤ نہ بہلے گا
تڑپاؤ تو تڑپے گا، پہروں دلِ دیوانہ
مجھ سے نہ پوچھ میرا حال، سُن مِرا حال کچھ نہیں
تیری خوشی میں خوش ہوں میں، مجھ کو ملال کچھ نہیں
میرے لئے جہان میں، ماضی و حال کچھ نہیں
جب بھی نہ تھا کوئی سوال، اب بھی سوال کچھ نہیں
مجھ کو کوئی خوشی نہیں، مجھ کو ملال کچھ نہیں
یہ تو تِرا کمال ہے، میرا کمال کچھ نہیں
کبھی شاخ و سبزہ و برگ پر، کبھی غنچہ و گل و خار پر
میں چمن میں چاہے جہاں رہوں میرا حق ہے فصلِ بہار پر
مجھے دے نہ غیب میں دھمکیاں، گریں لاکھ بار یہ بجلیاں
میری سلطنت یہی آشیاں، میری ملکیت یہی چار پر
میری سمت سے اسے اے صبا! یہ پیام آخر غم سنا
ابھی دیکھنا ہو تو دیکھ جا، کہ خزاں ہے اپنی بہار پر
پھر دل ہے قصدِ کوچۂ جاناں کئے ہوئے
رگ رگ میں نیشِ عشق کو پنہاں کئے ہوئے
پھر عزلتِ خیال سے گھبرا رہا ہے دل
ہر وسعتِ خیال کو زنداں کئے ہوئے
پھر چشمِ شوق دیر سے لبریزِ شکوہ ہے
قطروں کو موج، موج کو طوفاں کئے ہوئے