تشنگی نے سراب ہی لکھا
خواب دیکھا تھا، خواب ہی لکھا
ہم نے لکھا نصابِ تِیرہ شبی
اور بصد آب و تاب ہی لکھا
منشیانِ شہود نے تا حال
نہ رکھا ہم نے بیش و کم کا خیال
شوق کو بے حساب ہی لکھا
نہ لکھا اس نے کوئی بھی مکتوب
پھر بھی ہم نے جواب ہی لکھا
دوستو! ہم نے اپنا حال اسے
جب بھی لکھا، خراب ہی لکھا
ہم نے اس شہر دِین و دولت میں
مسخروں کو "جناب" ہی لکھا
جون ایلیا
No comments:
Post a Comment